اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں ساتویں مردم شماری کا آغاز ہو چکا ہے جس کے پہلے مرحلے میں خانہ شماری دس مارچ کو مکمل کرلی گئی ہے، ایسے میں مذہبی اقلیتوں کی طرف سے خانہ شماری کے مرحلے میں تحفظات سامنے آرہے ہیں اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس مردم شماری میں بھی اقلیتوں کی آبادی کم ظاہر کی جا سکتی ہے۔
اقلیتی برادری نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع میں مسیحی رہائشی آبادیوں میں ٹیبلیٹ ڈیوائس کی بجائے فارمز کے ذریعے اعداد و شمار اکٹھے کئے جانے کے مبینہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ جس پر مسیحی افراد کے خدشات ہیں کہ اس عمل کے ذریعے ان کی اصل آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
’فارم غلط فہمی کی بنا پر تقسیم ہوئے:‘ ادارہ شماریات
پاکستان کے ادارہ شماریات کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر محمد یونس نے گوجرانوالہ کی مسیحی رہائشی آبادی میں فارم تقسیم کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ فارم غلط فہمی کی بنا پر تقسیم ہوئے ہیں۔‘
محمد یونس نے بتایا کہ خانہ شماری اور مردم شماری کا سارا عمل ڈیجیٹل ہے جس میں کسی سے کوئی فارم پرُ نہیں کروایا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گوجرانوالہ کے کھوکھرکی اور اسلام کالونی کے علاقوں میں ایک فیلڈ ورکر نے غلطی سے وہ فارم تقسیم کر دیے جو کہ پنجاب حکومت نے عوامی آگاہی کے لیے بھجوائے تھے، ان فارمز کا مقصد لوگوں کو مردم شماری کے بارے میں آگاہ کرنا اور اس میں حصہ لینے کے بارے میں شعور اجاگر کرنا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیلڈ ورکر جوکہ سرکاری ٹیچر تھا اس نے شاید اپنی سہولت کے لیے لوگوں سے فارم پرُ کروانا چاہے تاکہ بعد ازاں اسے ٹیبلیٹ ڈیوائس پر اپ لوڈ کر سکے۔
محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’اس ٹیچر کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ وہ تقسیم شدہ تمام فارمز واپس لے، کوئی بھی فیلڈ ورکر اگر ایسی حرکت کرے گا تو ٹیبلیٹ ڈیوائس پر اس کی نشاندہی ہو جائے گی کیونکہ فیلڈ میں کام کرنے کا دورانیہ ٹیبلیٹ ڈیوائس میں خود بخود درج ہو جاتا ہے، ایسا ممکن نہیں کہ کوئی فیلڈ ورکر فارم پُر کروا کر اپنے گھر بیٹھ کر اسے اپ لوڈ کر سکے۔‘
’اقلیتوں کے ساتھ دانستاً ایسا سلوک کیا جارہا ہے‘
گوجرانوالہ میں مقامی ادارہ برائے سماجی انصاف ساتویں مردم شماری کو مدنظر رکھتے ہوئے اقلیتوں کو آگاہی فراہم کر رہا ہے۔ اس ادارے کی سوشل کوآرڈینیٹر حنا عمران نے ادارہ شماریات کو خانہ شماری کے دوران تقسیم کیے جانے والے فارمز کی نہ صرف باقاعدہ شکایت درج کروائی بلکہ جو فارمز تقسیم کئے گئے تھے وہ ادارہ شماریات کے افسران کے سامنے رکھے۔
حنا عمران کا کہنا ہے کہ کھوکھرکی اور اسلام کالونی کے علاقوں میں جب وہ عوامی آگاہی کی مہم چلا رہی تھیں تو لوگوں نے انھیں وہ فارمز دکھائے جو ادارہ شماریات کے کارکن نے گھروں میں تقسیم کئے تھے۔
’لوگوں کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہی ہیں کہ اس دفعہ مردم شماری ڈیجیٹل ہو رہی ہے تو ہمیں گھروں میں پُر کرنے کے لیے فارمز دیے گئے ہیں جسے ادارہ شماریات کی ٹیم اگلے روز واپس وصول کر لے گی۔‘
حنا عمران کا کہنا تھا کہ ’فارمز میں دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہیے، ایک تو فارمز میں مذہب کا خانہ موجود نہیں، دوسرا یہ کہ فیلڈ ورکر نے لوگوں کو کہا کہ آپ نے فارمز کچی پینسل سے پُر کرنے ہیں ، جوکہ صریحاً اس بات کی نشاندہی ہے کہ بعد ازاں فارمز میں ردوبدل کیا جانا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارے سروے کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ ایک گھر میں اگر دوسری فیملی کرائے پر رہتی ہے تو اس بارے میں عملے نے لوگوں کو ہدایات دی کہ اس کا اندراج بھی اسی ایک فارم پر ہو گا، حالانکہ قانون کے مطابق ہر فیملی کا اندراج الگ الگ کیا جانا چاہیے۔‘
حنا عمران نے بتایا کہ جب انھوں نے محکمہ شماریات کے مقامی آفیسر کو اس بارے آگاہ کیا تو انھوں نے مبینہ طور پر تسلیم کیا کہ پہلے بھی ایسی تین چار شکایات آ چکی ہیں اور ہمارے منع کرنے کے باوجود فیلڈ ورکرز لوگوں میں فارمز تقسیم کر رہے ہیں۔
حنا عمران نے بتایا کہ کہ ان کے ادارے کے پشاور کے سوشل موبلائزر جدون نے بھی یہی شکایت کی ہے کہ پشاور کے کچھ اقلیتی رہائشی علاقوں میں بھی فارمز تقسیم کیے جارہے ہیں جوکہ غیر قانونی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فارمز کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کارروائی پر لوگ پریشان اور خوف زدہ بھی ہیں کہ نہ جانے یہ کون لوگ ہیں کہ جو ہمارے خاندانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں جس میں ان کے شناختی کارڈز اور موبائل فون نمبرز بھی شامل ہیں۔
چھٹی مردم شماری کو مختلف حلقوں نے مسترد کیا تھا
قومی مردم شماری 2023 کے حوالے سے ادارہ برائے سماجی انصاف کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کا باضابطہ اعلان 2021 میں کیا گیا جس کے نتائج کو سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، اقلیتی برادری، دیگر سماجی حلقوں بشمول معذور افراد اور خواجہ سراء برادری نے قبول نہیں کیا تھا۔
چھٹی مردم شماری میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کی شرح میں مجموعی طور پر 0.21 فیصد کمی ظاہر کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 2017 میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی جس میں مسیحی 2.64 ملین یا 1.27 فیصد ، ہندو 3.6 ملین یا 1.73 فیصد، احمدی 0.19 ملین یا 0.09 فیصد، شیڈیولڈ کاسٹ 0.85 ملین یا 0.41 فیصد اور دیگر مذاہب بشمول سکھ، پارسی، بہائی، کیلاش برادری سے تعلق رکھنے والے افراد 0.04 ملین یا 0.02 فیصد تھے۔
ملک ایک لاکھ 85 ہزار بلاکس میں تقسیم
محکمہ شماریات کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق ساتویں مردم شماری کے لیے ایک لاکھ 85 ہزار 509 بلاکس بنائے گئے ہیں جن میں پنجاب کو 93 ہزار 746، سندھ کو 43 ہزار 838، خیبرپختونخوا کو 28 ہزار 868، بلوچستان کو 11 ہزار 857، پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کو چار ہزار 124، اسلام آباد کو ایک ہزار 737، گلگت بلتستان کو ایک ہزار 339 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ڈیٹا اکٹھا کرنے کے جو ضوابط جاری کئے گئے ہیں ان کے مطابق تمام ڈیٹا ٹیبلیٹ ڈیوائس پر اکٹھا کیا جائے گا اور یہ ٹیبلیٹ محکمہ شماریات تمام فیلڈ سٹاف کو مہیا کرے گا، ٹیبلیٹ ڈیوائس کے استعمال کی باقاعدہ تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا جوکہ نادرا کے اشتراک سے کی گئی
ویب سائٹ کے مطابق ملک بھر میں خانہ شماری یکم سے دس مارچ تک ہو گی، گیارہ مارچ کو نظر ثانی ہوگی تاکہ اگر کوئی کام رہ گیا ہے تو اسے مکمل کیا جائے جبکہ مردم شماری کا آغاز 12 مارچ کو کیا جائے گا جو کہ چار اپریل کو اختتام پذیر ہو گی، 30 اپریل کو مردم شماری کے ابتدائی نتائج جاری کئے جائیں گے۔