پیونگ یانگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے/رائٹرز) جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنماؤں کے درمیان سربراہی اجلاس سے عین قبل شمالی کوریا نے یہ تجربہ کیا ہے۔ جنوبی کوریا کے مطابق شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے سمندر میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغا ہے۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ پیونگ یانگ نے 16 مارچ جمعرات کی صبح ایک اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا تجربہ کیا، جو رواں ہفتے اس نوعیت کا تیسرا تجربہ ہے۔
سیول کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے کہا، ”ہماری فوج نے پیونگ یانگ میں سنان کے علاقے سے فائر کیے گئے ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا پتہ لگایا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک طویل فاصلے تک مار کرنے والا آئی سی بی ایم تھا۔
جاپان کی حکومت نے بھی اس میزائل داغنے کی تصدیق کی ہے۔ جاپان کے کوسٹ گارڈز کا اندازہ ہے کہ فائر کیے جانے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد یہ میزائل نیچے گرا۔
جاپانی وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ 6000 کلومیٹر سے بھی زیادہ بلندی پر تقریباً 70 منٹ تک یہ میزائل فضا میں پرواز کرتا رہا۔
جاپان کے وزیر دفاع یاسوکازو ہماڈا نے کہا کہ میزائل ممکنہ طور پر ان کے ملک کے خصوصی اقتصادی زون سے باہر پانی میں گرا۔ اس کے لینڈنگ کا مقام اوشیماوشیما کے مغربی جزیرے سے تقریباً 250 کلومیٹر دور تھا۔ یہ علاقہ اس مقام کے پاس ہی ہے جہاں شمالی کوریا کے حالیہ میزائل ٹیسٹ کے بیشتر آئی سی بی ایم گرتے رہے ہیں۔
متعدد میزائلوں کا تجربہ
خطے میں جنوبی کوریا اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں کے درمیان شمالی کوریا اس ہفتے پہلے ہی دو میزائل تجربات کر چکا ہے۔ پیونگ یانگ امریکہ کی مشترکہ مشقوں کو حملے کی مشق کے طور پر دیکھتا ہے۔ اتوار کے روز ہی اس نے خبردار کیا تھا کہ وہ جنگ کے مقابلے کے لیے ایک ”اہم حکمت عملی” کے اقدامات کا آغاز کرے گا۔
اس کے بعد اس نے مشرقی سمندر میں ایک آبدوز سے ایک ہی دن میں دو میزائلوں کا تجربہ کیا۔ جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ منگل کو شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے کم فاصلے تک مار کرنے والے دو بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت شمالی کوریا کو ایسے بیلسٹک میزائلوں کے تجربے سے منع کیا گیا ہے، جو جوہری ہتھیاروں سے بھی لیس ہو سکتے ہوں۔
جنوبی کوریا کے رہنما کا دورہ جاپان
شمالی کوریا نے تازہ آئی سی بی ایم کا تجربہ ایک ایسے وقت کیا، جب جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا کے ساتھ ایک اہم ملاقات کے لیے ٹوکیو کے لیے روانہ ہونے والے تھے۔ ان کی روانگی سے محض چند گھنٹے قبل یہ واقعہ پیش آیا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ سربراہی کانفرنس، گزشتہ 10 برس سے بھی زائد عرصے میں پہلی بار ہو رہی ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے تاریخی، سیاسی اور اقتصادی تنازعات پر قابو پانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں شمالی کوریا سے لاحق خطرے اور دیگر چیلنجوں کے پیش نظر تعاون کو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
جنوبی کوریا اور جاپان دونوں ہی دفاعی اخراجات اور مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
یون نے اپنے سفر سے قبل کہا، ”شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل کے بڑھتے خطرات کے حوالے سے مجموعی بحرانوں کے اس دور میں کوریا اور جاپان کو تعاون میں اضافہ کرنے ضرورت ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم کوریا اور جاپان کے کشیدہ تعلقات پر توجہ دیے بغیر وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں باہمی دشمنی کے شیطانی چکر کو ختم کرنا چاہیے اور دونوں ممالک کے اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔”