اسلام آباد (ش ح ط) صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے اقلیتی سکھ برادری کے ایک تاجر کو ہلاک کر دیا۔
https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1641769686806437890?t=nYrcbZCdcd__9LLiT95iqw&s=19
پولیس کے مطابق پشاور کے علاقے دیر کالونی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے سکھ تاجر ہلاک ہوگیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ دیال سنگھ اپنے جنرل اسٹور میں موجود تھے جہاں انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
پشاور پولیس کا کہنا تھا کہ موٹرسائیکل سوار حملہ آور واردات کے بعد فرار ہوگئے تھے۔
واقعے کی اطلاع ملنے کے فوراً بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچ گئی اور لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پشاور میں اقلیتی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے قتل کے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں، گزشتہ سال 15 مئی 2022 کو پشاور کے علاقے سربند میں نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کرکے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 2 افراد کو قتل کردیا۔ قتل کیے جانے والے سکھ شہریوں میں 42 سالہ سلجیت سنگھ اور 38 سالہ رنجیت سنگھ شامل تھے۔ یہ دونوں بٹاٹل علاقے میں مصالحہ جات کی دکانوں کے مالک تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
سال 2021 میں پشاور میں چارسدہ بس اسٹینڈ کے قریب نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے سکھ حکیم کو قتل کردیا تھا، بعد ازاں قتل کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی تھی۔
اس سے قبل جنوری 2020 میں شادی کیلئے وطن واپس آنے والے سکھ نوجوان کو پشاور میں قتل کردیا گیا تھا، بعد ازاں پشاور پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ پرویندر سنگھ نامی سکھ نوجوان کے قتل میں ان کی منگیتر ملوث تھی۔
مئی 2018 میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں قتل کردیے گئے تھے، پولیس کا کہنا تھا کہ سکھ رہنما چرنجیت سنگھ دکان سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
اس سے قبل اپریل 2016 میں خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن اسمبلی اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر سورن سنگھ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
سورن سنگھ ضلع بونیر میں پیر بابا میں واقع اپنے گھر جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم ملزمان نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
سورن سنگھ پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔