نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) بھارتی ریاست اتر پردیش کے ملیانہ میں 1987کے فسادات میں 72 مسلمانوں کے قتل کے تمام ملزمان اور گجرات فسادات کے دوران گینگ ریپ اور قتل کے 27 ملزمان کو بھارتی عدالتوں نے “شواہد کے فقدان” کا حوالہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔
اترپردیش کے میرٹھ ضلعے کے ملیانہ گاوں میں 23 مئی 1987 کوفرقہ وارانہ فسادات کے دوران 72 مسلمانوں کی ہلاکت کے چھتیس برس بعد مقامی عدالت نے قتل، لوٹ مار اور آتش زنی کے تمام 40 ملزمان کو بری کردیا۔ اس کیس میں 90 افراد کو ملزم بنایا گیا تھا تاہم ان میں سے 40 کی موت ہوچکی ہے جب کہ بقیہ کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
ملیانہ فسادات کے سلسلے میں کیس دائر کرنے والے یعقوب علی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پولیس نے انہیں بری طرح مارا پیٹا تھا اور بعض کاغذات پر دستخط کروالیے تھے۔ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ دراصل پولیس نے اسی کو ایف آئی آر کی بنیاد بنادیا۔ اس کیس میں 800 سے زائد سماعتیں ہوئیں۔
ملزمان کے وکیل سی ایل بنسل نے بتایا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لکھوندر سود نے ثبوتوں کے فقدان میں ملزمین کو رہا کر دیا۔
‘تفتیشی ایجنسیوں نے ایمانداری سے کام نہیں کیا’
مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی کا کہنا ہے کہ بھارت میں آزادی کے بعد ستر ہزار سے زائد فسادات ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے کبھی بھی ملزمان کو سزا نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں فسادات نہیں رک سکے ہیں۔
تسلیم رحمانی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شواہد کے فقدان کے نام پر ملزمان کو بری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں نے اپنا کام ایمانداری سے انجام نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، “بابری مسجد کے انہدام کے ملزمین عدالت کے احاطے میں کھڑے ہوکر کہہ رہے تھے کہ انہوں نے مسجد منہدم کی ہے لیکن عدالت کہہ رہی تھی کہ ان کے خلاف شواہد موجود نہیں ہیں۔”
تسلیم رحمانی کا کہنا تھا کہ “اگر اسی طرح سے انصاف کیا جائے گا اور بالخصوص مسلمانوں کو انصاف دیا ہی نہیں جائے گا تو پھر بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا قائم ہوگی۔”
‘انصاف کو پس پشت ڈالا جارہا ہے’
تسلیم رحمانی کا کہنا تھا کہ مشہور مقولہ ہے’جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائیڈ’ اب جب اتنی تاخیر سے کوئی فیصلہ آتا ہے تو متاثرہ شخص تو پہلے ہی انصاف سے محروم ہو چکا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ “اگر انصاف قائم نہیں ہوگا تو امن قائم نہیں ہوسکتا اور حالیہ برسوں میں نچلی عدالتوں سے جو فیصلے ہو رہے ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ انصاف کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔”
گجرات میں بھی ملزمان بری
گجرات کے پنچ محل ضلع کی عدالت نے بھی سن 2002 کے گجرات فسادات کے دوران گینگ ریپ اور 12 افراد کے قتل کے تمام 27 ملزمان کو’ثبوتوں کے فقدان’ میں بری کردیا۔ اس کیس میں 39 افراد کو ملزم بنایا گیا تھا لیکن ان میں سے 12سماعتوں کے دوران چل بسے۔
ایڈیشنل سیشن جج ایل جی چڈاسما نے کہا کہ اس کیس میں 190 گواہوں سے جرح کی گئی۔ وہ یا تو مکر گئے یا پھر ٹھوس ثبوت نہیں پیش کرسکے۔ اس لیے عدالت سمجھتی ہے کہ “یہ کیس کسی شواہد کے بغیر صرف قیاس آرائی پر مبنی “ہے۔
خیال رہے کہ 27 فروری 2002 کو گودھرا ٹرین میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد گجرات میں فسادات پھوٹ بڑے تھے۔
اس وقت نریندر مودی وہاں کے وزیر اعلیٰ تھے۔ فسادات کے دوران دو ہزار سے زائد افراد مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ فسادات کے دوران لوگوں کو زندہ جلادینے کے درجنوں واقعات پیش آئے تھے۔
‘عدالتوں کا سرکاری سطح پر ناجائز استعمال کیا جارہا ہے’
مسلم پولیٹیکل کونسل آف انڈیا کے صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاروں کے بدلنے کے باوجود فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں کبھی بھی انصاف قائم نہیں ہوا۔” حکومتیں عدالتوں کا سرکاری طورپر ناجائز استعمال کررہی ہیں تاکہ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔”
تسلیم رحمانی کے مطابق بھاگلپور کے فسادات، میرٹھ کے فسادات ہوں یامرادآباد کے فسادات۔ ممبئی فسادات پر سری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بہت سے لوگوں کے نام بھی ظاہر کیے تھے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ لبراہن کمیشن نے بابری مسجد کے ملزمان کے نام بتائے تھے لیکن عدالت نے انہیں بری کردیا۔ ابھی حال ہی میں بلقیس بانو کا کیس سب کے سامنے ہے ملزمان کو سزا ملی لیکن عدالت نے انہیں بھی رہا کردیا۔