ڈھاکا (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) بنگلہ دیش کی انسداد دہشت گردی فورس (آر اے بی ون) ماورائے عدالت ہلاکتوں میں ملوث ہے۔ ڈی ڈبلیو اور نیترا نیوز نے اپنی ایک نئی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں ایسی غیرقانونی ہلاکتوں کی چھان بین کی ہے۔
ڈی ڈبلیو اور نیترا نیوز کی مشترکہ تحقیق کے مطابق ماورائے عدالت قتل کے لیے مہینوں پر مبنی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ہلاک کرنے سے قبل انسداد دہشت گردی فورسز کی پندرہ یونٹس میں سے ایک کی ذمہ داری ہدف کی مکمل نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ ان افراد کو رات کے وقت اٹھایا جاتا ہے اور خصوصی پولیس کے زیر انتظام خفیہ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔
Bangladesh's elite police unit RAB has long been accused of murder, torture and abductions. The government has always rejected these claims. Now, for the first time, DW and @NetraNews spoke to two whistleblowers from inside the "death squad." pic.twitter.com/1WceVb5ACw
— DW News (@dwnews) April 3, 2023
اس فورس کے چنگل سے بچ جانے والے فقط چند افراد نے اپنی آپ بیتی سنانے پر رضامندی ظاہر کی۔ ان میں سے ایک شخص کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں نومبر کی ایک شب خصوصی پولیس فورس نے ڈھاکا کے ایک علاقے میں واقعے اس کے گھر پر چھاپا مارا۔ نافذ محمد عالم نامی اس تئیس سالہ شخص نے بتایا کہ پہلے تو پولیس اہلکاروں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور واٹربورڈنگ سے گزارا اور بعد میں متعدد صحافیوں کو اس کے گھر پر مدعو کیا۔
بنگلہ دیش میں ان دنوں نام نہاد ‘آنکھوں کے سامنے گرفتاری‘ دکھائی جاتی ہے، جس میں صحافیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، جو کسی گرفتاری کا سرکاری احوال نشر کرتے ہیں جب کہ اس معاملے میں کسی صورت ناقدانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہوتی۔ یوں خبروں میں فقط پولیس کامؤقف پیش کیا جاتا ہے۔
عالم کی گرفتاری کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے ارد گرد باوردیمسلح پولیس اہلکارموجود ہیں جبکہ سامنے الکوحل سے بھری بوتلیں رکھی ہوئی ہیں، جو عالم پر شراب کی غیرقانونی تجارت کے ثبوت کے طور پر دکھائی گئی ہیں۔
عالم کے مطابق کیمرے نے یہ نہیں دکھایا کہ خود اس فورس کے اہلکاروں نے صحافیوں کے پہنچنے سے قبل یہ بوتلیں وہاں لا کر رکھیں۔ عالم کے اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔ اس نے بتایا کہ پھر اسے ڈھاکا کے ہوائی اڈے کی طرف جاتی سڑک پر بنے اس آر اے بی ون نامی فورس کی ایک بڑی عمارت میں پہنچایا گیا۔ عالم نے بتایا کہ یہاں اسے ایک بند کوٹھڑی میں رکھا گیا۔
اس فورس کے چند سابقہ کمانڈرز نے تصدیق کی ہے کہ اس فورس نے چار یا پانچ ایسے کمرے بنا رکھے ہیں، جہاں باتھ روم اور کمبل کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس فورس کے داخلی ذرائع کے مطابق یہ کمرے ساؤنڈپروف ہیں اور عمارت میں انہیں تلاش کرنا بھی آسان نہیں۔
عالم کے مطابق یہاں پر اسے تواتر کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ عالم لیکن خوش قسمت ہے کہ وہ زندہ ہے، بعض صورتوں میں آر اے بی فورسز لوگوں کو مارنے یا لاپتا کر دینے جیسے واقعات میں بھی ملوث سمجھی جاتی ہے۔ تاہم حکومت ان الزامات کو رد کرتی ہے۔
مشترکہ تفتیش
ڈی ڈبلیو کے تفتیشی یونٹ نے سویڈن میں قائم نیترا نیوز کے ساتھ مل کر کئی ماہ تک اس معاملے کی تفتیش کی۔ اس تفتیش میںبنگلہ دیش کی اس خصوصی پولیس، جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ فوجی اہلکار میں شامل ہیں، کی سرگرمیوں کو جانچا گیا۔ یہ فورس دو دہائیاں قبل بنائی گئی تھی تاہم پہلی بار اس سے وابستہ دو داخلی ذرائع نے وسل بلوور یا گھر یا بھیدی بن کر اس ڈیتھ اسکواڈ کے طریقہ کار سے متعلق معلومات فراہم کیں۔
یہ دونوں افراد وہ سابقہ فوجی اہلکار ہیں، جنہیں آر اے بی کے مختلف یونٹس میں بہ طور کمانڈر نامزد کیا گیا تھا۔ ان ذرائع کی شناخت مخفی رکھی گئی ہیں کیوں کہ ان افراد نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ معلومات افشا ہو جانے کی صورت میں ان کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
نیترا نیوز کے ساتھ مل کر ڈی ڈبلیو کے تفتشی یونٹ نے ان افراد کے اعترافی بیانات کو ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں، پولیس اور پوسٹ مارٹم رپورٹوں سمیت دیگر ذرائع سے جانچا۔ اس میں ایک ماورائے عدالت قتل کی ایک آڈیو ریکارڈنگ کے علاوہ متعدد دیگر کیسز میں دستیاب رپورٹوں اور ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا۔
احکامات اوپر سے
ان وسل بلوورز کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات فقط یہیں پر موقوف نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فورس کو اعلیٰ حکومتی شخصیات سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اس فورس کی کارروائیوں کے احکامات بنگلہ دیش کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کی جانب سے جاری ہوتے ہیں۔
ایک وسل بلوور نے بتایا کہ اگر متعلقہ ہدف کوئی سیاسی شخص ہو تو اس کے لیے اجازت خصوصی طور پر وزارت داخلہ یا خود وزیرداخلہ جاری کرتے ہیں۔ دوسرے وسل بلوور نے کہا، ”وزیراعظم کی منظوری کے بغیر وزارت داخلہ سے ایسے احکامات کا اجرا ممکن نہیں۔‘‘
ان کی مراد وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے ہے، جو سن دو ہزار نو سے اب تک مسلسل اقتدار میں ہیں۔ وہ نوے کی دہائی کے آخر میں بھی وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہی تھیں۔ ”وزیر داخلہ یا اس سے بھی اوپر کے دفتر یعنی وزیراعظم کی جانب سے طے کردہ ہدف کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘‘