اسلام آباد (ڈیلی اردو/ بی بی سی) 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو رات دو بجے راولپنڈی کی سینٹرل جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
ان کو راولپنڈی جیل کے زنانے حصے میں ایک سات بائی دس فٹ کی کوٹھری میں قید کیا گیا تھا۔
بھٹو کو ایک پلنگ، گدا، چھوٹی سی میز، اور ایک بک شیلف دی گئی تھی۔ بغل میں ایک چھوٹی سی کوٹھری تھی جہاں ان کے لیے ایک قیدی کھانا بناتا تھا۔
ہر دس دن بعد وہ قیدی بدل دیا جاتا تھا تاکہ اس بھٹو سے انسیت نہ ہوجائے۔ کبھی کبھی بھٹو کے دوست اور دانتوں کے مشہور ڈاکٹر، ڈاکٹر نیازی ان کے لیے کھانا بھیجا کرتے تھے۔
بھٹو کی زندگی پر کتاب لکھنے والے مصنف سلمان تاثیر جن کا بعد میں قتل کردیا گیا، اپنی کتاب ’بھٹو‘ میں لکھتے ہیں ’شروع کے دنوں میں بھٹو جب بیت الخلا جاتے تھے تو ایک سیکورٹی گارڈ وہاں بھی ان کی نگرانی کرتا تھا۔ بھٹو کو یہ بات اتنی ناپسند تھی کہ انھوں نے تقریباً کھانا کھانا بند کردیا تھا تاکہ انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کچھ دن بعد اس طرح کی سخت نگرانی بند کردی گئی تھی اور ان کے لیے کوٹھری کے باہر علیحدہ ایک بیت الخلا بنوا دیا گیا تھا۔‘
بھٹو کو جیل کے اندر پڑھنے کی آزادی تھی۔ آخری دنوں میں وہ چارلس ملر کی ’خیبر‘، رچرڈ نکسن کی سوانح عمری، جواہر لال نہرو کی ’ڈسکوری آف انڈیا‘ اور صدیق سالخ کی ’وٹنیس ٹو سرنڈر‘ کا مطالعہ کر رہے تھے۔
پنجاب حکومت کے جلاد تارا مسیح کو بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے لاہور سے بلایا گیا تھا۔ ان کا یہ کام پشتینی پیشہ تھا۔ ان کا خاندان مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے سے پھانسی دینے کا کام کررہا تھا۔
اس وقت مسیح کی تنخواہ 375 روپے ماہانہ تھی اور ہر پھانسی دینے پر انہیں اضافی 10 روپے ملتے تھے۔ جیل میں رہتے ہوئے بھٹو مسلسل اپنے مسوڑھوں میں درد سے بے حد پریشان تھے۔ ان میں پس بھی پڑ گئی تھی۔
بھٹو کو لگتا تھا کہ انہیں پھانسی نہیں ہوسکتی
ایک بار جب جیل کے اندر ڈاکٹر نیازی ایک لالٹین کی روشنی میں ان کے دانتوں کا معائنہ کررہے تھے تو بھٹو نے ان کے ساتھ مذاق کیا ’تم بھی میری طرح سے بدقسمت ہو، تمھارے کلینک میں ایک حسین لڑکی تمہاری مدد کررہی ہوتی ہے اور یہاں مدد کرنے کے لیے ایک قیدی ملا ہے۔‘
بے نظیر بھٹو 2 اپریل 1979 کی صبح اپنے بستر میں لیٹی ہوئی تھیں تبھی اچانک ان کی والدہ نصرت بھٹو کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئیں ’پنکی، گھر کے باہر جو فوجی ہیں وہ کہہ رہے ہیں ہم دونوں کو آج ہی تمہارے والد سے ملاقات کرنے جانا پڑے گا، اس کا مطلب کیا ہے؟‘
بے نظیر اپنی سوانح عمری ’ڈاٹر آف دا ایسٹ‘ میں لکھتی ہیں ’مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ میری والدہ کو بھی معلوم تھا۔ لیکن ہم دونوں اس کو قبول نہیں کرپا رہے تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ ضیا الحق میرے والد کا قتل کرنے کو تیار تھے۔‘
نصرت اور بے نظیر بھٹو کو ایک شیورلیٹ کار میں راولپنڈی جیل لایا گیا۔ تلاشی کے بعد انہیں بھٹو کے سامنے لے جایا گیا۔ ان کے درمیان پانچ فٹ کی دوری رکھی گئی۔
بے نظیر لکھتی ہیں ’میرے والد نے پوچھا تھا کہ گھر والوں سے ملاقات کے لیے انہیں کتنا وقت دیا گیا ہے؟ جواب آیا آدھا گھنٹہ۔ میرے والد نے کہا کہ لیکن جیل کے قوانین کے مطابق پھانسی سے پہلے خاندان والوں سے ملاقات کے لیے ایک گھنٹہ ملتا ہے لیکن اہلکار نے جواب دیا کہ مجھے ایسی ہی ہدایت موصول ہوئی ہیں کہ آپ کو صرف آدھا گھنٹہ دیا جائے۔ وہ زمین پر ایک گدے پر بیٹھے تھے کیونکہ ان کی کوٹھری سے ان میز، کرسی اور پلنگ ہٹا دیے گئے تھے۔‘
بے نظیر مزید لکھتی ہیں ’انہوں نے میری لائی ہوئی کتابیں اور میگزین مجھے واپس کردیں۔‘
’میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد وہ لوگ انہیں ہاتھ لگائیں۔ انہوں نے مجھے ان کے وکیل کے دیے ہوئے کچھ سگار بھی واپس کیے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شام کے لیے میں نے ایک سگار بچا کر رکھا ہے۔ انہوں نے شالمیار کولون کی ایک شیشی بھی اپنے پاس رکھی تھی۔ وہ مجھے اپنی شادی کی انگوٹھی دے رہے تھے، لیکن میری والدہ نے انہیں روک دیا۔ اس پر انہوں نے کہا ’ابھی تو میں اسے پہن لیتا ہوں لیکن بعد میں اسے بےنظیر کو دے دیا جائے۔‘
تھوڑی دیر بعد جیلر نے آکر کہا کہ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے۔
بے نظیر نے کہا کہ کوٹھری کو کھولیے ’میں اپنے والد کو گلے لگانا چاہتی ہوں لیکن جیلر نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘
بےنظیر مزید لکھتی ہیں ’میں نے کہا، پلیز میرے والد پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ہیں اور میں ان کی بیٹی ہوں۔ یہ میری آخری ملاقات ہے اور مجھے ان کو گلے لگانے کا حق ہے۔ لیکن جیلر نے صاف انکار کردیا۔ میں نے کہا گڈ بائے پاپا۔ میری والدہ نے سلاخوں کے درمیان ہاتھ بڑھا کر میرے والد کے ہاتھ کو چھوا۔ ہم دونوں تیزی سے باہر کی جانب نکلے۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن میری ہمت جواب دے گئی۔‘
جیل سپریٹنڈنٹ یار محمد نے انہیں کالا وارنٹ پڑھ کر سنایا جسے انہوں نے چپ چاپ سنا۔
بھٹو نے کوٹھری کے باہر کھڑے گارڈ کو بلایا اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ سے کہا کہ مرنے کے بعد میری گھڑی اس کو دے دی جائے۔
آٹھ بج کر پانچ منٹ پر بھٹو نے اپنے ہیلپر عبدالرحمن سے کافی لانے کے لیے کہا۔ انہوں نے رحمان سے کہا کہ اگر میں نے تمہارے ساتھ کوئی بدسلوکی کی ہو تو اس کے لیے مجھے معاف کردینا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد ان کا ریزر اس لیے واپس لے لیا گیا تھا کہ کہیں وہ اس سے خودکشی نہ کرلیں۔
سلمان تاثیر لکھتے ہیں ’بھٹو نے کہا، مجھے داڑھی بنانے کی اجازت دی جائے، میں مولوی کی طرح اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا۔‘
نو بج کر 55 منٹ پر انہوں نے اپنے دانتوں میں برش کیا، چہرہ دھویا، اور بال بنائے۔ اس کے بعد وہ سونے چلے گئے۔ رات دیڑھ بجے انہیں اٹھایا گیا۔ وہ ہلکے بادامی رنگ کی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھے۔ جیل اہلکاروں نے کپڑے تبدیل کرنے پر زور نہیں دیا۔
جب سیکورٹی اہلکاروں نے ان کے ہاتھ پیچھے باندھنے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔
آخر کار انہوں نے زبردستی ان کے ہاتھ رسی سے باندھ دیے۔ اس کے بعد انہیں ایک سٹیچر پر لٹا کر تقریباً 40 گز کی دوری تک لے جایا گیا۔
سلمان تاثیر مزید لکھتے ہیں ’اس کے بعد بھٹو سٹیچر سے خود اتر گئے اور پھانسی کے پھندے تک خود چل کرگئے۔ جلاد نے ان کا چہرہ کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ ان کے پیر باندھ دیے گئے۔ جیسے ہی دو بج کر چار منٹ پر مجسٹریٹ بشیر احمد خان نے اشارہ کیا، جلاد تارا مسیح نے لیور کھینچا۔ بھٹو کے آخری الفاظ تھے ’فنش اٹ۔‘
35 منٹ بعد بھٹو کے مردہ جسم کو ایک سٹریچر پر رکھ دیا گیا۔
اس زمانے میں راولپنڈی سینٹرل جیل میں خفیہ اہلکار رہے کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری 223 دن‘ میں لکھتے ہیں ’تھوڑی دیر بعد ایک خفیہ ایجنسی کے ایک فوٹوگرافر نے آکر بھٹو کے پرائیوٹ پارٹس کی فوٹو اتاریں۔ حکومت اس بات کی تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ آیا بھٹو کی اسلامی طریقے سے ختنے بھی ہوئے تھے یا نہیں۔ تصاویر اتارنے کے بعد اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ بھٹو کے ختنے ہوئے تھے۔‘
بعد میں شیام بھاٹیہ نے اپنی کتاب ’گڈبائی شہزادی‘ میں لکھا تھا کہ بےنظیر نے انہیں خود بتایا تھا کہ بھٹو کو موت کے بعد بھی اس بے عزتی سے گزرنا پڑا تھا۔
بےنظیر اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں ’ممی کی دی نیند کی وولیم گولیوں کے باوجود ٹھیک دو بجے میری آنکھ کھل گئی اور میں زور سے چلائی۔ نو۔نو۔۔ میری سانس رک رہی تھی۔ جیسے کسی نے میرے گلے میں پھندا پہنا دیا ہو۔ پاپا، پاپا۔ میرے منھ سے بس یہی نکل رہا تھا۔ سخت گرمی کے باوجود میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔‘
چند گھنٹوں کے بعد سینٹرل جیل کے اسسٹنٹ جیلر اس گھر میں گئے جہاں نصرت اور بے نظیر بھٹو کو نظر بند کیا گیا تھا۔
اسے ملتے ہی بےنظیر کے پہلے الفاظ تھے ’ہم وزیراعظم کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں۔‘
جیلر کا جواب تھا ’انہیں تدفین کے لیے لے جایا جا چکا ہے۔‘
بے نظیر لکھتی ہیں ’مجھے لگا جیسے کسے نے مجھے گھونسا مارا ہو۔ میں نے چلا کر کہا آپ انہیں ان کے اہل خانے کے بغیر تدفین کے لیے کیسے لے جاسکتے ہیں؟‘
اس کے بعد اس جیلر نے بھٹو کی ایک چيز بے نظیر کو سونپی۔
بے نظیر لکھتی ہیں ’اس نے مجھے پاپا کی شلوار قیمض دی جو پاپا نے مرنے سے پہلے پہن رکھی تھی۔ اس سے شالمیار کولون کی مہک ابھی تک آرہی تھی۔ پھر اس نے ایک ٹفن باکس دی جس میں انہیں گزشتہ دس دنوں سے کھانا بھیجا جارہا تھا جسے وہ کھا نہیں رہے تھے۔ اس نے ان کا بستر اور چائے کا کپ بھی مجھے دیا۔ میں نے پوچھا ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟ جیلر نے پوچھا ان کے پاس انگوٹھی بھی تھی کیا؟ پھر اس نے جھولے میں سے انگوٹھی تلاش کرنے کا ڈرامہ کیا اور پھر انگوٹھی مجھے پکڑا دی۔ وہ جیلر بار بار کہہ رہا تھا کہ ان کی آخرت بہت پرسکون تھی۔‘ میں نے سوچا پھانسی بھی کیا کبھی پُرسکون ہوسکتی ہے۔
بےنظیر کے خاندان کے ملازم بشیر کی نگاہ جیسے ہی بھٹو کے شلوار قمیض پر پڑی، وہ چلانے لگا۔ ’یا اللہ، یا اللہ، انھوں نے ہمارے صاحب کو مار دیا۔‘