نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) اقوام متحدہ کی ملازم کے طور پر کام کرنے والی تقریباً 400 خواتین پر طالبان نے بین الحکومتی تنظیم کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے والی خواتین اب تک پابندی سے مستثنٰی تھیں۔
اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا کہ طالبان نے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر افغان خواتین پر پابندی میں توسیع کرتے ہوئے ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کو بھی اس میں شامل کرلیا۔
The @UN in #Afghanistan expresses serious concern that female national UN staff have been prevented from reporting to work in Nangarhar province.
We remind de facto authorities that United Nations entities cannot operate and deliver life-saving assistance without female staff. pic.twitter.com/2Bt8kPJVSl
— UNAMA News (@UNAMAnews) April 4, 2023
منگل کے روز طالبان کی جانب سے پابندی کا عندیہ دیے جانے کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان میں اپنے عملے کے تقریباً3300 ارکان کو اگلے 48 گھنٹوں تک کام پر نہیں آنے کے لیے کہا ہے۔
ان میں 400 کے قریب خواتین ملازمین شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ افغانستان میں ان کی خواتین عملے کو “عملاً حکام کی طرف سے ایک حکم” موصول ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے عہدیدار کابل میں طالبان حکام سے بدھ کے روز ملاقات کریں گے اور “کچھ وضاحت طلب کریں گے۔”
ایسی پابندی ناقابل قبول ہے، اقوام متحدہ
طالبان نے دسمبر میں تمام غیر ملکی اور ملکی این جی اوزکو اپنی خواتین ملازمین کو کام کرنے سے روک دینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کو اس اصول سے اب تک مستثنٰی رکھا گیا تھا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کے روز بتایا کہ اس کی خواتین عملے کو ننگرہار صوبے میں کام پر جانے سے روک دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق گوٹیرش کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی پابندی “ناقابل قبول اور واضح طورپر ناقابل فہم” ہو گی۔ انہوں نے کہا “اس طرح کے احکامات، جیسا کہ ہم نے آج دیکھا، خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدم امتیاز کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔”
دوجارک نے بتایا کہ اقوام متحدہ اس وقت افغانستان میں تقریباً23 ملین افراد کو انسانی امداد فراہم کر رہا ہے جو ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کا عملہ ملک میں زمینی سطح پر امدادی کارروائیوں، بالخصوص دوسری ضرورت مند خواتین کی شناخت کے لیے بہت اہم ہے۔
گوٹیرش نے ننگر ہار میں پابندی کی بھی مذمت کی اور ٹویٹ کیا کہ یہ پابندی “ضرورت مند لوگوں تک جان بچانے والی امداد پہنچانے کی ہماری صلاحیت کو لامحالہ نقصان پہنچائے گی۔”
طالبان کا یہ اقدام “صنفی سزا” کے مترادف
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں امریکی قیادت میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ تب سے طالبان قیادت نے اسلام کی سخت تشریح مسلط کر رکھی ہے۔
نوعمر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
خواتین سرکاری ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے جب کہ تمام خواتین کو کسی محرم مرد کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گھر سے باہر نکلنے کے لیے برقع پہننا ضروری ہے۔ خواتین کو پارکوں یا باغات میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
افغانستان میں انسانی حقوق کے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے جنیوا میں ایک حالیہ تقریر میں کہا،”خواتین پر طالبان کے اقدامات “صنفی سزا” کے مترادف ہوسکتے ہیں۔