اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) سیاسی و معاشی مشکلات کے شکار پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن کا اعلان کر دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں، جب پاکستان کو شدید سیاسی و معاشی مشکلات کا سامنا ہے، قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن کا اعلان ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟
پاکستان کی قومی سلامتی کی کمیٹی نے گزشتہ روز ایک اعلان میں ملک میں موجود انتہا پسند عسکری گروہوں کے خاتمے کے لیے ایک نیا ملک گیر آپریشن شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ ان معاشی مسائل کے دوران یہ فیصلہ کرنا ایک مشکل امر تھا۔
پاکستان کو اس وقت شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے اور ملک کو ڈیفالٹ ہو جانے کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا بیل آؤٹ پروگرام نومبر سے تعطل کا شکار ہے۔ ان تمام حالات کے ساتھ ملک میں سیاسی گرما گرمی بھی عروج پر ہے جبکہ حکومت اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے مابین ‘سیاسی جنگ‘ شدت اختیار کر چکی ہے۔
ملک میں 2014 میں بھی انتہا پسند عسکری گروہوں کے خلاف ملک گیر آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا، جس کے باعث ملکی خزانے پر اربوں ڈالر کا بوجھ پڑا تھا۔ اس آپریشن میں دس لاکھ سے زائد لوگ بے گھر اور سینکڑوں مارے گئے تھے۔
سکیورٹی کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پوری قوم اور حکومت کے ساتھ مل کر ایک جامع آپریشن شروع کیا جائے گا، جس سے دہشت گردی سے نجات ملنے کی امید ہے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس اس بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران انتہا پسند گروہوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور پر جب سے حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین مذاکرات کا سلسلہ منقطع ہوا ہے۔
رواں سال اس گروہ کی جانب سے ملک کے شمال مغربی شہر پشاور کی ایک مسجد پر خودکش بم دھماکوں سمیت حملوں کا ایک نیا سلسلہ دیکھنے میں آیا، جس میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
سکیورٹی کمیٹی کے مطابق جمعہ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں ملک کی عسکری قیادت نے شرکت کی اور ایک کمیٹی تشکیل دی، جو دو ہفتوں کے اندر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کی تفصیلات سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔