کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) یہ مارچ 2013 کا واقعہ ہے جب لاہور کی جوزف کالونی میں اسنوکر کھیلتے ہوئے دو افراد کے درمیان جھگڑا اس قدر بڑھا کہ بات توہینِ مذہب کے الزام تک جاپہنچی۔
بات ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ تک پہنچی تو پولیس کو مقدمہ درج کرنا پڑا اور اسلم مسیح (فرضی نام) کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن توہینِ مذہب کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی جس کے بعد مسیحی گھرانوں پر حملے شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں گھر اور دکانیں جلادی گئیں۔
اسلم کے خلاف مقدمے کی کارروائی ایک سال میں مکمل ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ لیکن فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی جو چھ برس تک ہائی کورٹ میں زیرِ التوا رہی، تاہم ناکافی شواہد کی بنا پر ملزم کو رہا کر دیا گیا۔
تین بچوں کے باپ اسلم کا کہنا ہے کہ یہ سات برس ان کے لیے کسی اذیت سے کم نہیں تھے۔ رہائی کی ہر آس ختم ہو چکی تھی اور یادداشت بھی شدید متاثر ہورہی تھی۔
اسلم کو کسی صورت یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی جیل سے باہر آکر اپنے بچوں کے ہمراہ پھر سے زندگی سے گزار سکے گا۔ لیکن پھر ایک دن اس کی بے گناہی ثابت ہوئی اور وہ سالوں بعد جیل سے باہر آگیا۔
یہ کہانی صرف اسلم کی ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کی شکایات اب بھی عام ہیں۔
جہاں کئی افراد کو برسوں جیل میں گزارنے پڑتے ہیں تو وہیں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والوں کو اپنی جان کی لالے بھی پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبِ عالم مشال خان بھی ایسے ہی بدقسمت افراد میں شامل تھے جنہیں چھ برس قبل مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس اندوہناک واقعے کے بعد بڑے پیمانے پر ردِعمل سامنے آنے کے باوجود ملک میں توہینِ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
مشال خان پر ان کی فیس بُک پوسٹ میں مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد نشر کرنے کا الزام تھا۔ اور بس اس نوجوان پر یہ الزام ہی اسے موت کے گھاٹ اتارنے کا موجب بنا جب کہ نہ ہی تو کسی عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا گیا، نہ ان پر مقدمہ چلا اور نہ ہی صفائی کا موقع۔
اگرچہ اس واقعے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی اور قتل کے الزام میں 57 افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی چلایا گیا۔ گرفتار افراد میں زیادہ تر طلبہ اور جامعہ کے ملازمین شامل تھے۔
‘ قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے بہت کچھ کرنا باقی ہے’
انسانی حقوق کے کارکن اور کالم نگار پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ حکومت کو توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی، انتظامی اور تعلیمی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 2009 میں پنجاب کے شہر گوجرہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے بعد سات افراد کے قتل سمیت درجنوں گھروں کو آگ لگادی گئی تھی۔
اس واقعے کے بعد ایک جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے توہینِ مذہب کے واقعات اور اس تناظر میں ہونے والی بدامنی کو روکنے کے لیے بعض اہم تجاویز پیش کی تھیں، ان پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرلیا جائے تو ایسے واقعات سے مستقبل میں بچا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں معصوم متاثرین کے نقصان کی جہاں تلافی ضروری ہے وہیں توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام عائد کرکے تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی بھی ضرورت ہے۔
سندھ پولیس کے اپنے اعدا د و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے وسط تک صوبائی عدالتوں میں توہینِ مذہب سے متعلق کُل 119 کیسز زیر التوا تھے ۔ان میں سے پولیس کسی ایک بھی کیس میں ملزم کو عدالت سے سزا دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
لاہور میں قائم سینٹر فار سوشل جسٹس، پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ تین برسوں میں توہین مذہب کے الزامات کے 463 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے زیادہ تر خود مسلمانوں ہی کے خلاف مقدمات درج ہوئے ہیں جن کی کُل تعداد 288 بنتی ہے۔
وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کا دعویٰ ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کا سلسلہ اب تھم چکا ہے اور گزشتہ چند برسوں میں اس پر کافی کام ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جہاں کہیں بھی ایسی شکایت موصول ہوتی ہے تو حکومت اور علمائے کرام دونوں اس کی مکمل تحقیقات کرتے ہیں اور اگر واقعی ایسا معاملہ ہو تو تب ہی مقدمہ درج کیا جاتا ہے ورنہ جھوٹے الزامات عائد کرنے والے کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
گزشتہ 35 سال میں ملک میں توہین مذہب کے واقعات کا الزام عائد کرکے اب تک 88 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے جن میں سے اکثریت مسلمانوں (46) کی ہے ۔ ایسے ماورائے عدالت قتل بھی زیادہ تر صوبہ پنجاب میں رونما ہوئے ہیں۔
حال ہی میں قومی اسمبلی نے توہین مذہب کے قوانین میں مزید ترمیم کی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ اس سے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ تاہم انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اس ترمیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ملک میں مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کا مزید استحصال کیا جائے گا۔
کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے قوانین کے غلط استعمال کے پاکستان کے پریشان کن ریکارڈ کے پیش نظر، ان ترامیم کو مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف غیر متناسب طریقے سے ہتھیار بنائے جانے کا امکان ہے۔