نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارتی کشمیر کے سابق گورنر نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے اس معاملے پر ان سے خاموش رہنے کو کہا تھا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ تازہ انکشافات ایک بار پھر اس کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام خطہ جموں وکشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ جنوبی کشمیر کے پلوامہ میں بھارتی فوج پر شدت پسندوں کے حملے کی ذمہ داری مودی کی مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور سسٹم کی ناکامی اور لاپرواہی کی وجہ سے ایسا ہوا تھا۔
سابق گورنر کا کہنا ہے کہ انہیں، ”اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کا مقصد اس حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر انتخابات میں فائدہ حاصل کرنا تھا۔”
اتوار کے روز پاکستان نے ان کے ان بیانات کی روشنی کہا کہ اسے امید کہ عالمی برادری تازہ ترین انکشافات کا نوٹس لے گی اور خود غرض سیاسی مفادات اور جھوٹ و فریب پر مبنی پاکستان کے خلاف بھارت کی پروپیگنڈہ مہم کا جائزہ لینے کی کوشش کرے گی۔
سابق گورنر نے اپنے انٹرویو میں کیا کہا؟
بھارت کے معروف صحافی کرن تھاپر نے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کا انٹرویو لیا، جو گزشتہ جمعے کے روز نشر ہوا۔ 14 فروری 2019 میں جب جنوبی کشمیر کے پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ ہوا، تو اس وقت بی جے پی کے رہنما ستیہ پال ملک ہی کشمیر کے گورنر تھے۔
اس حملے میں بھارتی ‘سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) کے تقریبا 40 اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور درجنوں زخمی بھی ہوئے تھے۔
انھوں نے اس حملے کے لیے کشمیر میں وسیع تر پیمانے تعینات نیم فوجی دستے ‘سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) اور اس وقت کی وزارت داخلہ کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا: ”سی آر پی ایف نے اپنے اہلکاروں کو لے جانے کے لیے حکومت سے ایئر کرافٹ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم وزارت داخلہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔”
ان کا کہنا تھا کہ اگر ان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہوتا، ”تو میں انہیں طیارہ فراہم کر دیتا، چاہے کسی بھی طرح انتظام کرنا ہوتا، انہیں صرف پانچ طیاروں کی ہی ضرورت تھی، جو انہیں نہیں فراہم کیے گئے۔”
یاد رہے کہ پلوامہ واقعے کے وقت بھارت کے موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ مرکزی وزیر داخلہ تھے۔ ستیہ پال ملک نے بھارتی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ سی آر پی ایف نے اپنے قافلے کے راستے میں مناسب حفاظتی چیکنگ کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا۔
سابق گورنر ستیہ پال ملک نے اس حملے کی ناکامی کی ذمہ داری بھارت کی خفیہ ایجنسیوں پربھی عائد کی اور کہا، ”پاکستان سے 300 کلوگرام آر ڈی ایکس لے جانے والا ٹرک 10 سے 12 دن تک جموں و کشمیر میں گھومتا رہا لیکن انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اس کا سراغ کیسے نہیں مل سکا۔”
انہوں نے کہ حملے کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی جم کاربیٹ پارک میں ایک ڈاکیومنٹری کی شوٹنگ کر رہے تھے، وہاں فون نہیں تھا اور شوٹنگ ختم ہونے کے بعد انہوں نے ایک ڈھابے سے فون کیا تو، ”میں نے ان کے ساتھ بھی ان مسائل پر بات کی۔ لیکن وزیر اعظم نے زبان بند رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے متعلق ابھی کسی سے کوئی بات نہ کریں۔”
”میں نے ان سے کہا کہ جناب میں بہت ناراض ہوں کہ یہ صرف ہماری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، اگر ہم انہیں ایک طیارہ دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس پر انہوں نے مجھے منہ بند رکھنے کو کہا۔”
ستیہ پال ملک کا کہنا تھا کہ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے بھی انہیں اس وقت اس معاملے پر خاموش رہنے کی ہدایات کی تھیں، جو ”میرے کلاس میٹ بھی ہیں۔”
اپنے انٹرویو کے دوران سابق گورنر نے الزام لگایا کہ ”مجھے تبھی اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کا مقصد اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کر کے انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔”
”میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ اس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد کی جائے گی اس لیے اس موضوع پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔”
پاکستان کا رد عمل
پاکستانی دفتر خارجہ نے گورنر کے ان تازہ انکشاف کے بعد اپنے رد عمل میں کہا کہ ایک بار پھر سے فروری سن 2019 کے پلوامہ حملے سے متعلق پاکستان کے موقف کی تصدیق ہوئی ہے۔
بیان کے مطابق انکشافات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح، ”بھارتی قیادت نے اپنے سیاسی فائدے اور اور ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستانی دہشت گردی سے متاثر ہونے کے شرمناک بیانیے کو عادتاً استعمال کرتی ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا: ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی برادری تازہ ترین انکشافات کا نوٹس لے گی اور خود غرض سیاسی مفادات اور جھوٹ اور فریب پر مبنی پاکستان کے خلاف بھارت کی پروپیگنڈہ مہم کا جائزہ لے گی۔”
”بھارت کو تازہ ترین انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ بھارت کو ان اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے جس کی وجہ سے پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو نقصان پہنچا۔”
پلوامہ حملہ
14 فروری سن 2019 میں جنوبی کشمیر کے پلوامہ میں بھارتی فوج پر حملہ ہوا تھا، جس میں بھارتی ‘سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) کے تقریبا 40 اہلکار ہلاک ہوئے تھے اور درجنوں زخمی بھی ہوئے تھے۔
بھارت نے اس حملے کا الزام شدت پسند تنظیم جیش محمد پر لگایا تھا اور حملے کے کچھ روز بعد اس نے پاکستان کے بالا کوٹ علاقے میں جیش محمد کے مبینہ تربیتی کیمپوں پر فضائی حملہ کر کے درجنوں شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی بھی کیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے ان دعوؤں کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے چند جہاز جلد بازی میں کچھ دھماکا خیز مواد جنگلی علاقوں میں گراکر فرار ہوگئے۔ پاکستان نے اسے فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی تھی اور فضائی حملوں میں بعض بھارتی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔
اس کے ردعمل میں جب بھارت نے پاکستانی فضائیہ کا تعاقب کیا تو پاکستان نے اس کے جنگی طیارے کو اپنی سرزمین پر مار گرایا اور اس کے ایک پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کر لیا تھا، جنہیں بعد میں خیرسگالی کے جذبات کے طور پر رہا کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ عام انتخابات میں نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے بالاکوٹ میں مبینہ بھارتی حملے کا خوب تذکرہ کیا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ مودی نے پلوامہ حملے کا بدلہ لے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت پالیسی پر گامزن ہے۔