نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) قطر کی حکومت نے دوحہ میں ایک دفاعی کمپنی میں ملازمت کرنے والے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں پر ’جاسوسی‘ کے الزامات کے تحت مقدمہ شروع کر دیا ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقدمے کی پہلی سماعت 29 مارچ کو ہوئی تھی اور آئندہ سماعت تین مئی کو ہے۔ تاہم انھوں نے کہا کہ قطر نے انڈین شہریوں کے خلاف عائد کی گئی فرد جرم کی تفصیلات انڈیا سے شیئر نہیں کی ہیں (یعنی ان پر کیا الزامات ہیں اس حوالے سے فی الحال کچھ معلوم نہیں۔)
تاہم انڈیا کے ایک سرکردہ نیوز پورٹل ’دی پرنٹ‘ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق بحریہ کے ان سابق اہلکاروں پر الزام ہے کہ انھوں نے اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات ایک ملک کو فراہم کی ہیں۔
انڈین بحریہ کے یہ سابق اہلکار دوحہ میں ایک نجی دفاعی کمپنی کے لیے کام کرتے تھے جو قطری بحریہ کے عملے کو مختلف نوعیت کی تربیت فراہم کرتی ہے۔
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم قطری حکام سے بات چیت کر رہے ہیں۔ ہم انڈین شہریوں کو رہا کروانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان کے گھر والوں سے بھی رابطے میں ہیں۔‘
کچھ دنوں قبل بھی باگچی نے کہا تھا کہ ’وزارت خارجہ اس معاملے کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس سلسلے میں قطری حکام سے بات چیت چل رہی ہے۔ اب جبکہ قانونی عمل شروع ہو چکا ہے ہم اس پر گہری نظر رکھیں گے۔ حالانکہ ابھی تک الزامات کھلی عدالت میں سامنے نہیں آئے ہیں۔‘
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈیا کے سکیورٹی حکام نے دوحہ میں قطری حکام کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ انڈیا اور اس کے شہری امارات کے خلاف کسی معاندانہ خفیہ جاسوسی مشن میں ملوث نہیں ہیں، لیکن قطری حکام اس بات پر مصر ہیں کہ ان کے آبدوز پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات ایک ملک کو ارسال کر رہے تھے۔
دی پرنٹ کے مطابق قطر کی خفیہ ایجنسی قطر سٹیٹ سکیورٹی کا کہنا ہے کہ اس نے خفیہ طریقے سے الیکٹرانک رابطے کے کچھ پیغامات پکڑے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انڈین بحریہ کے یہ سابق اہلکار آبدوزوں کے پروگرام کی جاسوسی کر رہے تھے، تاہم یہ مبینہ ثبوت فی الحال انڈیا کو ابھی تک نہیں دیے گئے ہیں۔
ان آبدوزوں کی نوعیت کیا ہے؟
قطر نے اپنی بحریہ کی جدید کاری کے منصوبے کے تحت اٹلی کے ساحلی شہر ٹرائسٹ میں واقع بحری جہاز بنانے والی کمپنی فین کینٹیری ایس پی اے کو دو آبدوزیں، چار چھوٹے جنگی بحری جہاز اور ایک ہیلی کاپٹر بردار بحری جہاز فراہم کرنے کا آرڈر دیا تھا۔
انتہائی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ان آبدوزوں کے بیرونی حصے میٹا مٹیریل استعمال کیا گیا ہے جس سے سمندر میں اس کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ آبدوزیں سب میرین بنانے والی کمپنی کیبی کیٹانیو کے اشتراک سے بیرگامو کی ایک فیکٹری میں بنائی جا رہی ہیں۔ ان آبدوزوں کے حصول کے بعد قطر خلیجی خطے میں آبدوزیں حاصل کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔
ان آبدوزوں کی تفصیلات کو بہت خفیہ رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے ڈیزائن کو بھی کبھی عام نہیں کیا گیا۔ انھیں بنانے والی کمپنی نے 2021 میں اٹلی کی وزارت دفاع کے سامنے اس حوالے سے ایک پریزنٹیشن دی تھی جس میں بھی ان کے اصل ڈیزائن کے بجائے کمپیوٹر ہر تیار کردہ ڈیزائن دکھایا گیا تھا۔
گرفتار اہلکار کون ہیں؟
انڈین بحریہ کے جن آٹھ سابق اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں بحریہ کے سابق کمانڈر پورنیندو تیواری، بیریندر کمار ورما، امیت ناگپال، سوگوناکر پاکالا، نوتیج سنگھ گل، سورب وشسٹ، سنجیو گپتا اور راجیش گوپا کمار شامل ہیں۔
ان میں کچھ اہلکار اپنی انڈین بحریہ کی ملازمت کے دوران آبدوزوں کے پراجیکٹ پر کام کر چکے ہیں۔ ان سبھی اہلکاروں کو گذشتہ سال 30 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا اور ستمبر سے یہ سبھی جیل میں ہیں۔ خبروں کے مطابق انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
دوحہ میں انڈین سفارتخانے کے توسط سے انھیں قونصلر کی امداد دی گئی تھی۔ انھیں اپنے رشتے داروں سے فون پر بات کرنے کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ بعض رشتے داروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کے لیے اپیل کے پیغامات بھی پوسٹ کیے گئے۔
لیکن ان کے خلاف جاسوسی کے الزامات کی خبریں آنے کے بعد رشتے داروں کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔
انڈین بحریہ کے یہ سبھی اہلکار قطر کی ایک نجی دفاع کمپنی ’الظاہرہ العالمی کنسلٹینسی اینڈ سروسز‘ میں کام کرتے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت اور ساز وسامان فراہم کرتی تھی۔ گرفتاری کے وقت پورنیندو تیواری کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔