اسٹاک ہوم (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) یورپ کے فوجی اخراجات میں 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد ریکارڈ رفتار سے اضافہ ہوا جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
سویڈن کے ’’اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی حالیہ تحقیق کے مطابق یورپ میں دفاعی خرچ کے اضافے نے عالمی فوجی اخراجات کو 2.24 ٹریلین ڈالر یا دنیا کی مجموعی ڈومیسٹک پیداوار کے 2.2 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔
یہ فوجی اخراجات مسلسل آٹھویں سال کے ریکارڈ اخراجات کو ظاہر کرتے ہیں۔
تحقیق کے ایک شریک مصنف اور محقق نان تیان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اضافہ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے ہوا ہے جو یورپی بجٹ کے اخراجات کو بڑھا رہا ہے۔ ان کے مطابق اس اضافے کی ایک اور وجہ امریکہ اور چین کے درمیان مشرقی ایشیا میں غیر حل شدہ اور بگڑتی ہوئی کشیدگی بھی ہے۔
تحقیق کے مطابق یوکرین پر روسی حملے کے ایک سال کے دوران یورپ نے گزشتہ 12 مہینوں کے مقابلے میں سال 2022 میں اپنے فوجی اخراجات میں 13 فیصد اضافہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک نے کہا کہ اعداد و شمار میں افراط زر کی تیز شرح کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس سے مراد یہ ہے کہ اصل اخراجات اس سے بھی زیادہ تھے۔
یورپی اخراجات میں یہ گزشتہ 30 سال سے زائد عرصے میں سب سے بڑا اضافہ تھا اور ’’ کانسٹنٹ ڈالرز‘‘ کے لحاظ سے یہ خرچ 1989 میں دیوار برلن کے گرنے کے وقت کے اخراجات کے برابر ہے۔
تیان کے مطابق اس طرح یورپ میں سرد جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی فوجی سرمایہ کاری ہے۔
سپری کے مخفف کے نام سے جانے جانے والے سویڈن کے ادارے نے کہا کہ صرف یوکرین نے اپنے اخراجات میں سات گنا اضافہ کرکے 44 بلین ڈالر، یا ملک کی جی ڈی پی کا ایک تہائی کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں، تحقیقی ادارے نے نوٹ کیا کہ یوکرین کو بیرون ملک سے اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کے عطیات سے بھی فائدہ ہوا ہے۔
اسی دوران روسی اخراجات میں گزشتہ سال اندازً 9.2 فیصد کا اضافہ ہوا۔ محقق تیان کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کے دو فریقوں کے علاوہ بھی یورپی فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سال 2022 میں یورپ کے کل فوجی اخراجات 480 بلین ڈالر تھے جو گزشتہ دہائی میں پہلے ہی ایک تہائی اضافہ ظاہر کرتے تھے۔ یورپی اخراجات کا یہ رجحان متوقع طور پر اگلی دہائی میں بھی جاری رہے گا اور اس میں مزید تیزی آئے گی۔
دنیا کے نصف فوجی اخراجات امریکہ اور چین کرتے ہیں
ا مریکہ عالمی فوجی اخراجات کا 39 فیصد خرچ کرتا ہے۔ چین دوسرے نمبر پر 13 فیصد کے ساتھ فوجی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔
یوں امریکہ اور چین نے دنیا کے نصف سے زیادہ فوجی اخراجات کیے ہیں جب کہ ان کے بعد روس نے عالمی سطح پر فوجی اخراجات کا 3.9 فیصد، بھارت نے 3.6 فیصد اور سعودی عرب نے 3.3 فیصد خرچ کیا۔
محقق تیان بتاتے ہیں کہ چین اپنی بحری افواج میں تیزی سے سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ بیجنگ تائیوان تک اپنی رسائی کو بڑھاسکے۔ اس کے بعد چین بحیرہ جنوبی چین سے آگے بھی اپنی رسائی بڑھائے گا۔
جاپان کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا، ملائیشیا، ویت نام اور آسٹریلیا سبھی اس رجحان کی پیروی کر رہے ہیں۔
یورپ میں برطانیہ سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والا ملک ہے جو عالمی سطح پر چھٹے نمبر پر ہے اور اس کا عالمی اخراجات میں 3.1 فیصد حصہ ہے جو جرمنی کے 2.5 فیصد سے اور فرانس کے 2.4 فیصد سے بھی آگے ہے۔ ان اعداد و شمار میں یوکرین کو دیے گئے عطیات بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے بعد برطانیہ یوکرین کو امداد دینے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
دوسرے یورپی ممالک میں پولینڈ، نیدرلینڈز اور سویڈن نے گزشتہ دہائی کے دوران اپنی فوجی سرمایہ کاری میں سب سے زیادہ اضافہ کیا۔
یورپ کے بڑھتے ہوئے اخراجات میں مہنگے ہتھیاروں کی خرید بھی شامل ہے ۔ مثال کے طور پر فن لینڈ نے گزشتہ برس امریکہ کے 64 جدید جنگی طیارے US F-35 خریدے تھے۔