طرابلس (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) مغربی لیبیا کے دو مختلف شہروں میں تارکین وطن کو لے جانے والی دو کشتیاں بحیرہ روم میں ڈوب گئیں جن میں کم از کم 57 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان افراد کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، شام اور تیونس سے بتایا جارہا ہے۔
‼️ #Tunisia ????????
Tunisia's navy have recovered 31 dead bodies off the coast of Tunisia.At several Tunisian coastal places, the bodies of several drowned people were swam in.Children were among the victims.
The victims mostly from sub-Saharan African were trying to reach safety pic.twitter.com/0uNZjUtpok
— Refugees In Libya (@RefugeesinLibya) April 24, 2023
زندہ بچ جانے والے ایک مصری باسم محمد نے منگل کے روز بتایا کہ غرقاب ہوجانے والی کشتیوں میں سے ایک میں تقریباً 80 مسافر سوار تھے۔ وہ منگل کے روز علی الصبح تقریباً دو بجے یورپ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔
باسم نے بتایا کہ کشتی پر سوار افراد چلاتے رہے کہ کشتی ڈوب رہی ہے لیکن اس کے مالک نے ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی اور کشتی کو روکنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ “ہم جدوجہد کرتے رہے حتی کہ کچھ لوگوں نے ہمیں ڈھونڈ لیا۔ سارا منظر انتہائی خوفناک تھا اور کچھ تو میرے سامنے ہی (پانی میں) ہلاک ہو گئے۔”
کوسٹ گارڈ کے ایک افسر اور ایک امدادی کارکن نے بتایا کہ بحیرہ روم میں دو مختلف مقامات پر دو کشتیوں کے ڈوب جانے سے کم از کم 57 افراد ہلا ک ہو گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں پاکستانی شامل
کوسٹ گارڈ افسر فتحی الزیانی نے بتایا کہ ایک بچے سمیت 11 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تارکین وطن کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش، شام، تیونس اور مصر سے ہے۔
حادثے کا شکار کشتیوں کے چار مسافر تیر کر ساحل تک آنے میں کامیاب ہو گئے۔
مغربی طرابلس کے صبراتہ میں ہلال احمر کے ایک کارکن نے بتایا کہ پچھلے چھ دنوں کے دوران ساحلوں سے کم از کم 64 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تمام “غیر قانونی تارکین وطن” ایک کشتی پر سوار تھے۔
صبراتہ ہلال احمر نے جو آن لائن تصویریں پوسٹ کی ہیں ان میں ٹرکوں پر سیاہ تھیلوں میں رکھی ہوئی لاشیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پانی پر تیرتی اور ساحلوں پر پڑی مزید لاشیں مل سکتی ہیں۔
رواں سال اب تک چارسو سے زائد تارکین وطن غرقاب
مہاجرین کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ‘انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن’ نے اس ماہ بتایا کہ رواں سال کے اوائل میں شمالی افریقہ سے یورپ جانے کی کوشش کرتے ہوئے 441 تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب گئے۔ یہ تین ماہ کے دوران پچھلے چھ برسوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
سن 2011 میں نیٹو کی مدد سے اس وقت لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کو اقتدار سے معزول کردیے جانے کے کوئی ایک دہائی بعد لیبیا یورپ جانے کی کوشش کرنے والے بیشتر افریقی تارکین وطن کے لیے روانگی کا سب سے اہم مقام بن گیا ہے۔ تاہم اب تیونس لیبیا کوپیچھے چھوڑتا جارہا ہے۔
پچھلے دو دنوں کے دوران اٹلی نے وسطی بحیرہ روم میں 47 کشتیوں کو بچایا جن پر تقریباً 1600 تارکین وطن سوار تھے۔ انہیں بعد میں لمپے ڈیوسا کے جزیرے کی ساحل پر اتار دیا گیا۔
اٹلی نے پیر کے رزو تیونس کو اقتصادی اور سیاسی اصلاحات کے بدلے میں مالی امداد کی پیش کش کی ہے۔ اس دوران یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اس افریقی ملک میں بڑھتی ہوئے عدم استحکام پر قابو پانے کے طریقہ کار پر بات چیت کی ہے۔