قاہرہ (ڈیلی اردو) قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بتایا کہ دوحہ میں مقیم پروڈیوسر کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ اپنے اہل خانہ سے ملنے مصر گئے تھے۔ تاہم اب بھی الجزیرہ کے دو صحافی مصر میں قید ہیں۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بتایا کہ قاہرہ حکومت نے اس کے مصر سے ہی تعلق رکھنے والے ایک صحافی ہشام عبدالعزیز کو مقدمے کی سماعت سے قبل چار برس کی قید کے بعد رہا کر دیا ہے۔
Al Jazeera journalist Hisham Abdelaziz had been held by Egyptian authorities in pre-trial detention since 2019 https://t.co/UZLcrdalHd pic.twitter.com/4GzLCIaFoM
— Al Jazeera English (@AJEnglish) May 1, 2023
دوحہ میں مقیم پروڈیوسر ہشام عبدالعزیز کو جون سن 2019 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ اہل خانہ سے ملنے کے لیے اپنے گھر واپس گئے تھے۔ گرفتاری کے بعد اسی برس دسمبر میں انہیں مختصر وقت کے لیے رہا کیا گیا، تاہم اس کے فوری بعد انہیں دیگر الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہا کہ صحافی پر “جھوٹی خبریں پھیلانے” اور “دہشت گرد گروپ میں شمولیت” جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
مصری حکام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر اس طرح کے دوہرے الزامات اپنے مخالفین کے خلاف عائد کرتے ہیں۔ الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے مزید دو صحافی اب بھی مصر کی جیلوں میں قید ہیں۔ اس نشریاتی ادارے کے مطابق گرفتار شدہ دونوں صحافی بھی اپنے اہل خانہ سے ملاقات کے لیے مصر چھٹیوں پر گئے تھے، اور اسی دوران انہیں بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
الجزیرہ کے پروڈیوسر ہشام عبدالعزیز کی گرفتاری اس وقت ہوئی تھی، جب قطر اور چار دیگر عرب ممالک کے درمیان سفارتی تنازعہ اپنے عروج پر تھا۔
سن 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے دہشت گردی کی حمایت کرنے کے الزام میں قطر کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ تاہم دوحہ نے اس طرح کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی۔
قطر نے مصر کے جمہوری طور پر منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حمایت کی تھی، جنہیں مصری فوج نے سن 2013 میں معزول کر دیا تھا اور پھر ایک برس بعد ان کی جگہ موجودہ صدر جنرل عبدالفتاح السیسی نے لے لی تھی۔ نتیجتاً، سن 2017 کے بائیکاٹ سے پہلے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات برسوں سے خراب تھے۔
قاہرہ نے نشریاتی ادارے الجزیرہ پر یہ الزام لگایا کہ اسے دوحہ کی پالیسیوں اور موقف کی توسیع کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جو کالعدم تنظیم اخوان المسلمون کے رہنما مرسی کے ترجمان کے طور پر کام کرتا ہے۔
تاہم سن 2021 کے اوائل میں پانچوں عرب ممالک کے درمیان تنازعہ ختم ہو گیا اور مصر نے پھر سے الجزیرہ کو اپنی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت دی۔
مصر کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں صحافیوں کو سب سے زیادہ گرفتار کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سن 2013 میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سے مصر نے ہزاروں سیاسی قیدیوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا کام کیا ہے اور جیل جانے والوں میں بہت سے صحافی بھی شامل ہیں۔
مصری حکام نے الجزیرہ سمیت حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا کے متعدد اداروں کے دفاتر پر چھاپے بھی مارے ہیں۔ کم از کم دو ایسے غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدر بھی کیا گیا، جن کی مصر سے متعلق رپورٹنگ میں فوجی حکمرانوں کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔
پیر کے روز الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ اس نے مصری حکام سے بارہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ مصر میں قید صحافیوں کو فوری طور پر رہا کر دے۔