دمشق (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی شامی دارالحکومت دمشق میں ہیں، جہاں انہوں نے شام کے ساتھ ایک طویل المدتی اسٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک تیل کی صنعت میں بھی تعاون کریں گے۔
12 برس قبل شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کسی بھی ایرانی صدر کا یہ شام کا پہلا دورہ ہے۔ ایرانی وفد میں خارجہ امور، دفاع، تیل، سڑکوں اور شہروں کی تعمیر کے علاوہ ٹیلی کمیونیکیشن کے وزراء بھی شامل ہیں۔ ایران کی سرکاری ریلوے کمپنی طویل عرصے سے اپنے نیٹ ورک کو ہمسایہ ممالک عراق اور شام کے راستے مزید وسعت دینے کی خواہش رکھتی ہے۔ ایران تجارت کو فروغ دینے کے لیے ریل نیٹ ورک کو بحیرہ روم پر واقع شامی بندرگاہ لاذقیہ سے جوڑنا چاہتا ہے۔
آخری مرتبہ سن 2010 میں سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے شام کا دورہ کیا تھا۔ تہران شامی صدر بشار الاسد کا ایک بڑا اتحادی ہے اور یہ ان شامی فورسز کو گزشتہ 12 برس سے حمایت فراہم کر رہا ہے، جو حکومت مخالف باغیوں سے لڑ رہے ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کا صدر رئیسی کے اس دورے کے بارے میں کہنا تھا، ”اس دورے کی اہمیت، اس کے سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی پہلوؤں کے علاوہ بھی ہے۔ یہ دورہ سیاسی عزم کی فتح اور علاقائی ہم آہنگی کے عمل میں سفارتی کامیابی کا مظہر بھی ہے۔‘‘
قبل ازیں شام میں تعینات ایرانی سفیر نے کہا تھا کہ یہ ملاقات ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی اور خلیجی ممالک کے شام کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں ہو رہی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے سے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور ایرانی صدر کا دورہ بھی اسی سیاسی تبدیلی کی ایک کڑی ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے اور اس کے اثرات شام کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
پیر یکم مئی کو چار عرب وزرائے خارجہ نے بھی اردن میں اپنے شامی ہم منصب سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں شام کے بحران کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ اسد حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ شام کو سن 2011 میں 22 رکنی عرب لیگ سے اس وقت نکال دیا گیا تھا، جب اس حکومت نے مظاہرین کے خلاف زبردست طاقت کا استعمال کیا تھا اور پھر اس ملک میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا تھا۔