پیرس (ڈیلی اردو/اے پی) صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ کے مطابق چین گزشتہ سال عالمی سطح پر صحافیوں کا سب سے بڑا جیل خانہ بنا رہا جہاں 100 سے زیادہ صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے کیونکہ صدر شی جن پنگ کی حکومت نے معاشرے پر کنٹرول کو سخت کر دیا تھا۔
???? #RSFIndex | There are changes at the bottom of the index, too. The last 3 places are occupied solely by Asian countries: Vietnam (178th), China (179th) and North Korea (180th).#WPFD2023#WorldPressFreedomDay pic.twitter.com/DlaTn6K0KT
— RSF (@RSF_inter) May 3, 2023
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق شی کی حکومت پراپیگنڈا مواد سب سے زیادہ برآمد کرنے وا لوں میں شامل تھی۔ گروپ کی طرف سے جاری پریس کی آزادی کے سالانہ انڈیکس میں چین آخری سے ایک درجہ اوپر تھا جب کہ شمالی کوریا اس فہرست میں سب سے آخر پر تھا۔
???? #RSFIndex RSF unveils the 2023 World Press Freedom Index:
1: Norway ????????
2: Ireland ????????
3: Denmark ????????
24: France ????????
26: United Kingdom ????????
45: United States ????????
68: Japan ????????
92: Brazil ????????
161: India ????????
136: Algeria ????????
179: China ????????
180: North Korea ????????https://t.co/5hHMzwc8KJ pic.twitter.com/Ji3HZcCywo— RSF (@RSF_inter) May 3, 2023
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین میں میڈیا پر پہلے سے ہی سخت کنٹرول رہا ہے اور حکمران کمیونسٹ پارٹی نے اس کنٹرول کو اور بھی کڑا کر دیا ہے جہاں تمام اخبارات اور نشریاتی ادارے سرکاری ملکیت کے تحت کام کرتے ہیں۔ ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ خود پر سینسرشپ عائد کرے۔ اس سینسر شپ کے تحت ایسے مواد کی اشاعت روک دی جاتی ہے جس سے یک جماعتی حکمرانی کی مخالفت کو جگہ مل سکتی ہو۔
A press freedom group says China was the biggest global jailer of journalists last year with more than 100 behind bars as President Xi Jinping’s government tightened control over society. https://t.co/srdpAjtzbu
— The Associated Press (@AP) May 5, 2023
چین میں گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے طاقتور شخصیت شی نے 2016 میں ان صحافیوں سے ملاقات کی تھی جنہیں ’’عوامی رائے کو درست سمت‘‘ پر لانے کے لیے سرکاری انعامات سے نوازا گیا تھا۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے بدھ کو ایک رپورٹ میں کہا کہ شی جن پنگ ’’ صحافت کے خلاف ہولناک جنگ ‘‘ کر رہے ہیں۔ گروپ نے پریس کی آزادی میں چین کی صورت حال کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیا۔
بیجنگ کو انٹرنیٹ کنٹرول کے لیے دنیا میں سب سے وسیع نظام چلانے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ وہ اپنے فلٹرز کے ذریعے چینی عوام کو بیرون ملک نیوز آؤٹ لیٹس، حکومتوں، انسانی حقوق اور دیگر کارکن گروپوں کے زیر انتظام ویب سائٹس کو دیکھنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چینی صحافیوں پر جاسوسی، قومی راز افشا کرنے اور جھگڑا کرنےکے الزامات کے تحت مقدمات چلائے گئے ہیں۔جھگڑا کرنے کا الزام بہت مبہم ہے جسے مخالفین کو جیل میں ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے معاملات میں صحافیوں کے خلاف نگرانی، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
صحافی ڈونگ یویو حکمران جماعت سے منسلک ایک اخبار میں کام کرتے تھے اور ہارورڈ یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ انہیں ایک سال سے زائد عرصے تک حراست میں رکھنے کے بعد اب ان پر جاسوسی کے الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کی وزیر خارجہ پینی وونگ نے مارچ میں کہا تھا کہ چین میں 2022 میں چینی نژاد آسٹریلوی صحافی چینگ لی پر قومی سلامتی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
چینگ انگریزی زبان کے سرکاری ٹی وی چینل CGTN کے لیے کام کرتے تھے جو غیر ملکی ناظرین کے لیے نشریات پیش کرتا ہے۔ انہیں اگست 2019 میں حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر ریاستی راز افشا کرنے کا الزام تھا۔
ہانگ کانگ میں کمیونسٹ پارٹی نے جمہوریت کے حامی ایک ممتاز روزنامے ’ ایپل ڈیلی‘ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے بند کرنے پر مجبور کیا۔
ایپل ڈیلی کے بانی جمی لائی کو گزشتہ سال دھوکہ دہی کا مجرم قرار دیا گیا تھا جس کے بارے میں ان کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس الزام کے محرکات سیاسی تھے۔ اخبار کے چھ سابق ایگزیکٹوز نے اعترافِ جرم کیا ہے۔