اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بلوچ علیحدگی پسندوں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں موجود مقامی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بنا رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیشرفت ملک میں پہلے سے ہی مخدوش سیکیورٹی صورتحال کو ممکنہ طور پر مزید بگاڑ دے گی۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے ’افغان امن اور مفاہمت: پاکستان کے مفادات اور پالیسی‘ کے موضوع پر مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔
سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں سمیت دیگر نے مباحثے میں حصہ لیا، اس کے اہم موضوعات میں ’پاک افغان دوطرفہ تعلقات: چیلنجز اور آئندہ حکمت عملی‘ اور ’ابھرتی ہوئی افغان صورتحال اور خطے پر اس کے مضمرات‘ شامل تھے۔
ماہرین نے کہا کہ ماضی کے برعکس ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے بلوچستان کے پشتون علاقوں میں حملے شروع کردیے ہیں، جو کہ بہت پریشان کن بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور حکومت اس حوالے سے بھی واضح نہیں ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے کیسے نمٹا جائے، گزشتہ سال حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند گروہ خیبرپختونخوا میں مرکزی دھارے اور قوم پرست سیاسی جماعتوں کے خلا کو پُر کر رہے ہیں، وہ اب صرف جہادی مذہبی گروپ نہیں رہے، یہ عسکریت پسند گروہ اب اپنے مفادات کے حصول کے لیے سیاسی اور قوم پرست سوچ کو فروغ دے رہے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے صحافی عدنان عامر نے کہا کہ اگست 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی سمیت مذہبی عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں نے بلوچستان میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، کالعدم ٹی ٹی پی نے پہلی بار صوبے کے پشتون علاقوں میں بھی حملے شروع کردیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے بلوچستان میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے ہیں، حال ہی میں کم از کم 3 مقامی بلوچ عسکریت پسند گروہ کالعدم ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی بلوچستان کے لوگوں کے لیے اپنی ہمدردی ظاہر کر کے صوبے میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں اپنی موجودگی بڑھانا چاہتی ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے افغان امور کے ماہر عقیل یوسفزئی نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے حالیہ بیانات سیاسی نوعیت کے ہیں، ان میں جہاد کا کوئی ذکر نہیں تھا، یہ گروہ گزشتہ 4 برسوں سے اپنے آپ کو پشتون قوم پرست گروہ کے طور پر متعارف کروا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قوم پرست جماعتوں اور کالعدم ٹی ٹی پی جیسے عسکریت پسند گروہوں کے بیانات اب ایک جیسے لگتے ہیں۔
عقیل یوسفزئی نے کہا کہ مقامی عسکریت پسند اور علیحدگی پسند گروہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ کر لیا ہے، حکومت کو تمام عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولنے چاہئیں۔
صدر انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور محمد اسرار مدنی نے کہا کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کے عوام کے دلوں میں پائی جانے والی دشمنی کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں اور تجارت کو بڑھانا ہو گا، اس سلسلے میں مذہبی سفارت کاری اور علمائے کرام کی شمولیت کی ضرورت ہے۔
اسرار مدنی نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ مختلف مسائل پر مسلسل بات چیت کرنی چاہیے اور یہ عمل صرف کسی ایک نشست تک محدود نہیں ہونا چاہیے، علاوہ ازیں پاکستان کو افغان عوام کی سہولت کے لیے اپنی بارڈر مینجمنٹ پالیسی کو عوام دوست بنانا چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے رہنما حافظ منیر احمد نے کہا کہ پاکستان کی افغان پالیسی سویلین سیٹ اپ اور پارلیمنٹ کو چلانی چاہیے، سیاسی جماعتوں کو یہ پالیسی بنانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) عون ساہی نے کہا کہ پاکستان میں ابہام ہے کہ نئی افغان پالیسی کون بنائے گا کیونکہ پچھلی پالیسی ناکام ثابت ہوئی تھی، یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اب جو بھی افغان پالیسی ہوگی اس کی قیادت کون کر رہا ہے۔
فریڈرک-ایبرٹ-اسٹیفٹنگ (ایف ای ایس) پاکستان کے پروگرام ایڈوائزر ہمایوں خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کا مسئلہ ہے، وسطی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے لیے بہت بڑا پوٹینشل موجود ہے، اگر دونوں ممالک اپنے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنائیں تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
پی آئی پی ایس کے جوائنٹ ڈائریکٹر صفدر سیال نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کا مصروف عمل ہونا تمام مسائل کا حتمی حل ہے، پاکستان میں افغان پالیسی سویلین حکومت کو چلانی چاہیے جس کی قیادت پارلیمنٹ کو کرنی چاہیے جبکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کو اس میں معاونت کرنی چاہیے۔