اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
عمران خان منگل کو دو مقدمات میں عبوری ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تھے کہ اس دوران اُنہیں گرفتار کر لیا گیا۔تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ سابق وزیرِ اعظم کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا۔
اس موقع پر رینجرز اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھے، اس دوران عمران خان کو بکتر بندی گاڑی میں بٹھا کر نامعلوم مقام کی طرف منتقل کر دیا گیا۔
اس سے قبل سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اُوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمے دار انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے افسر میجر جنرل فیصل نصیر کو ٹھہرایا ہے۔
پیر کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے عمران خان کی ہفتے کو کی گئی تقریر کی مذمت کے باوجود سابق وزیرِ اعظم نے منگل کو اسلام آباد روانگی سے قبل ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس پی آر پر کڑی تنقید کی۔
عمران خان نے کہا کہ “میں عدالت پیشی کے لیے اسلام آباد جا رہا ہوں، لیکن دو چیزیں کہنا چاہتا ہوں، پہلی تو یہ آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا ہے کہ ادارے کی بے عزتی کی جا رہی ہے کیوں کہ میں نے اُس فوجی افسر کا نام لیا ہے جس نے مجھ پر دو دفعہ قاتلانہ حملہ کرایا۔”
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ “آئی ایس پی آر صاحب میری بات غور سے سنیں، پاکستان میں عزت صرف ایک ادارے کی نہیں ہے، یہ عزت پاکستان کے ہر شہری کی بھی ہے۔”
اُن کا کہنا تھا کہ “میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ ہوں، مجھے جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
My reply to ISPR & attempts by PDM & their handlers to arrest me for two reasons: 1. To prevent me from campaigning bec InshaAllah when elections are announced I will be doing jalsas. 2. To prevent me from mobilising the masses for street movement in support of Constitution if… pic.twitter.com/IQIQmFERah
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 9, 2023
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ برس تین نومبر کو وزیرِ آباد کے قریب لانگ مارچ کے دوران اپنے اُوپر ہونے والے حملے کا ذمے دار آئی ایس آئی کے سینئر افسر میجر جنرل فیصل نصیر، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کو ٹھہرایا تھا۔
حملے کے بعد کئی روز تک عمران خان ان تینوں افراد پر الزام لگاتے رہے تھے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں اُنہوں نے فوجی افسر کا نام لینا چھوڑ دیا تھا۔ تاہم ہفتے کو لاہور میں عدلیہ سے اظہارِ یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک بار پھر میجر جنرل فیصل نصیر کا نام لے کر الزامات عائد کیے تھے۔
ان الزامات پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان جاری کر کے سابق وزیرِ اعظم کے بیانات کی مذمت کی تھی۔
فوج نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ ایک برس سے فوج اور خفیہ اداروں کےافسران کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور نا قابلِ قبول ہیں۔ بیان میں سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ قانونی راستے کا سہارا لیں اور جھوٹے الزامات لگانا بند کریں۔
عمران خان نے منگل کو اپنے ویڈیو بیان میں میجر جنرل فیصل نصیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ “اس شخص نے مجھے دو مرتبہ قتل کروانے کی منصوبہ بندی کی، جب بھی تحقیقات ہوئیں، میں ثابت کروں گا یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ ایک پورا ٹولہ تھا۔ اسی ٹولے کا نام صحافی ارشد شریف کی والدہ نے لیا تھا۔”
عمران خان نے کہا کہ وہ سابق وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود میں اپنے ملزموں کے خلاف ایف آئی درج نہیں کرا سکے کیوں کہ یہ مقدس گائے ہیں، قانون سے اُوپر ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ “آئی ایس پی آر صاحب جب کوئی ادارہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو ادارے کی ساکھ بہتر ہوتی ہے۔ یہ آپ نے کیا سلسلہ بنایا ہوا ہے کہ جب کوئی نام لیتا ہوں تو آپ یہ کہتے ہیں کہ فوج کو برا بھلا کہا جا رہا ہے۔”
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار میجر جنرل فیصل نصیر کو ‘ڈرٹی ہیری’ کہتے ہوئے کہا کہ اب یہ شخص میرے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔
عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا، آئی جی اسلام آباد
آئی جی اسلام آباد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں حالات ’معمول کے مطابق ہیں۔‘
اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ’دفعہ 144 نافذ العمل ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
عمران خان کو عدالت کے احاطے سے اغوا کیا گیا، فواد چوہدری کا دعویٰ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو عدالت کے احاطے سے اغوا کر لیا گیا ہے۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو نامعلوم افراد نامعلوم مقام پر لے گئے ہیں۔
نیب کی جانب سے عمران خان کا وارنٹ گرفتاری
چیئرمین نیب لفٹیننٹ جنرل نذیر احمد کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کا وارنٹ یکم مئی کو جاری کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن نائن اے کے تحت عمران خان پر بدعنوانی کا الزام ہے۔ انھوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملزم کی گرفتاری کا حکم دیا۔
اس وارنٹ میں درج ہے کہ ملزم کو گرفتاری کے بعد تحقیقات کے سلسلے میں عدالت پیش کیا جائے گا۔
’سکیورٹی اہلکاروں نے پہلے سپرے کیا، شیشے توڑے اور عمران خان پر تشدد کیا:‘ عمران خان کے وکیل کا دعویٰ
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے الزام عائد کیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے وقت سابق وزیر اعظم پر تشدد کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتاری کے دوران ’کسی بھی فرد فرد پر کسی بھی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا۔‘
یاد رہے کہ بیرسٹر گوہر اس وقت سابق وزیر اعظم کے ہمراہ ہائیکورٹ میں موجود تھے جب انھیں گرفتار کیا گیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہمیں پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ نیب نے القادر ٹرسٹ میں عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف جاری انکوائری کو انویسٹیگیشن میں بدل دیا ہے اور ہمیں اندازہ تھا کہ اس بنیاد پر عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘
بیرسٹر گوہر کے مطابق اسی خدشے کی بنیاد پر ’ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم عدالت میں درخواست دائر کریں گے تاکہ پولیس یا نیب حکام کو گرفتاری سے روکا جا سکے۔ اسی درخواست کو دائر کرنے کے لیے ہم بائیومیٹرک کروانے گئے جس دوران رینجرز نے حملہ کیا۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس دوران ’وہاں پہلے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے سپرے کیا گیا، چونکہ دروازہ بند تھا اس لیے دروازہ کو زبردستی کھولا گیا، شیشے توڑے گئے اور عمران خان پر اس دوران تشدد کیا گیا۔‘
تاہم ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کہا ہے کہ عمران خان پر تشدد نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کارکنوں کی جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس میں توڑ پھوڑ
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے کارکن راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ایک پر پہنچ گئے ہیں۔
اس حوالے سے بی بی سی کو موصول ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل مظاہرین گیٹ نمبر ایک کے باہر توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور اس کے پھر گیٹ کو زبردستی کھول کر اندر داخل ہو جاتے ہیں۔
موقع پر موجود صحافی خالد چوہدری کے مطابق اس مقام پر فی الحال مظاہرہ ابھی جاری ہے جبکہ مری روڈ پر واقع حمزہ کیمپ کے باہر موجود سکیورٹی چوکی کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔
دوسری جانب عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لاہور میں بھی احتجاج جاری ہے، جہاں بڑی تعداد میں مظاہرین لاہور کینٹ میں کور کمانڈر ہاؤس کے باہر موجود ہیں۔
بی بی سی کے فرقان الہی کے مطابق مظاہرین نے یہاں موجود گاڑیوں کو آگ بھی لگائی ہے جبکہ مظاہرین نے لاہور کینٹ میں موجود چند پولیس وینز کو بھی آگ لگا دی ہے۔
پشاور میں مظاہرین نے خیبر روڈ پر ریڈ زون کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
مظاہرین نے خیبر روڈ پر چوک کے قریب ریڈیو پاکستان کی عمارت کے اندر چاغی پہاڑ کے ماڈل کو آگ لگا دی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری نیب آرڈیننس اور قانون کے مطابق کی گئی، نیب
عمران خان کی گرفتاری پر نیب نے اپنا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نیب ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو القادر یونیورسٹی ٹرسٹ میں بدعنوانی کرنے کے جرم میں حراست میں لیا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’سابق وزیراعظم نیب کے طلبی نوٹس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیتے رہے جبکہ ان کی گرفتاری نیب آرڈیننس اور قانون کے عین مطابق کی گئی ہے۔‘
رینجرز نے خود شیشے توڑے اور توڑ پھوڑ کی، عمران خان کی سکیورٹی پر مامور اہلکار
عمران خان کی سکیورٹی پر مامور ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ عدالت میں عمران خان کی پیشی کے موقع پر رینجرز کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔
سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ وہ عمران خان کی حفاظتی ٹیم کا حصہ ہیں۔
انھوں نے بتایا ’ہم آج خان صاحب کو عدالت لے کر آ رہے تھے، بائیو میٹرک کے لیے لے کر گئے تو وہاں رینجرز کھڑے تھے، اسلام آباد پولیس بھی وہاں موجود تھی لیکن رینجرز زیادہ موجود تھے۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’جیسے ہی ہم نزدیک پہنچے تو انھوں نے دھکم پیل شروع کر دی، ہم نے انھیں بتایا کہ عمران خان کے اوپر نہیں آنا لیکن ان کی کارروائی کوئی اور تھی، ان کا ارادہ کچھ اور تھا۔ انھوں نے دھکم پیل شروع کر دی اور ایک ایک کر کے سکیورٹی اہلکاروں کو سائیڈ پر کرتے رہے۔‘
سکیورٹی اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ ’خان صاحب کو جب اندر لے کر گئے تو رینجرز نے خود شیشے توڑے اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔‘
’میرے سر پر ڈنڈا مارا اور ہمارے ساتھ ایک وکیل تھا، اسے بھی ڈنڈا مارا، اس کے بعد یہ ساری کارروائی شروع ہو گئی۔‘
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لاہور، پشاور میں مختلف مقامات پر احتجاج
سابق وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتاری کے فوراً بعد ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو ملک گیر احتجاج کرنے کی کال دے دی ہے۔
پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے عمران خان کا ایک ریکارڈڈ پیغام بھی جاری کیا گیا ہے جس میں وہ کارکنوں کو اپنی گرفتاری کے بعد حقیقی آزادی کے لیے باہر نکلنے کا ہدایت کر رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے حلقے کے کارکنوں کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔
احتجاج کی اس کال کے بعد صوبائی دارالحکومت لاہور میں اس وقت پی ٹی آئی کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔ لاہور میں زمان پارک کے اطراف کی سڑکوں کو کارکنوں نے رکاوٹیں لگا کر اور ٹائر جلا کر بلاک کر دیا ہے۔
اسی طرح صوبائی دارالحکومت پشاور میں بھی مختلف مقامات پر احتجاج جاری ہے۔
پشاور میں چند مظاہرین کی جانب سے ایف سی ہیڈ کورٹر کے سامنے نعرہ بازی کی گئی ہے جبکہ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش پر پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔
پاکستان میں ٹوئٹر سروس متاثر ہونے کی اطلاعات
پاکستان میں ٹوئٹر سروس متاثر ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین اس حوالے سے شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
’کل ملک بھر میں پرائیویٹ سکولز بند رہیں گے‘
صدر آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے کہا ہے کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر کل 10 مئی بروز بدھ ملک بھر میں پرائیویٹ سکولز بند رہیں گے۔
بیان کے مطابق پرائیویٹ سکولز میں ریگولر کلاسز کے شیڈول کا آئندہ اعلان کل مشاورت کے بعد جاری کیا جائے گا۔
احتجاج عمران خان کی رہائی تک جاری رہے گا، شاہ محمود قریشی
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش کی صورت میں اگر ہمارا رابطہ منقطع ہو جائے تو جہاں جہاں احتجاج ہو رہا ہے، عمران خان کی رہائی تک جاری رہے گا۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’عوام پر امن رہیں، انشاء اللہ ہم اپنے قائد کو بازیاب کرا کر ہی اب گھر جائیں گے۔‘
پی ٹی آئی کا کوئٹہ میں احتجاج: تحریک انصاف کا ایک کارکن ہلاک، متعدد زخمی
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران کوئٹہ میں تحریک انصاف کا ایک کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیا اللہ لانگو نے احتجاج کے دوران ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما آصف ترین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ اورشیلنگ سے پارٹی کا ایک کارکن ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے ہیں۔
سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک لاش اور چار زخمیوں کو منتقل کرنے کی تصدیق ہوئی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے خلاف تحریک انصاف کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کوئٹہ کینٹ کے علاقے میں ایئرپورٹ روڈ پر جمع ہو گئی اور کینٹ کے مرکزی گیٹ کے قریب دھرنا دیا۔
احتجاج کے دوران پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی جبکہ پولیس کی جانب سے جیل کی گاڑیاں بھی لائی گئی تھیں۔
انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں نے دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کِیے اور ان کو سڑک سے احتجاج ختم کرنے کے لیے کہا لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی رہائی تک سڑک پر احتجاج جاری رکھیں گے۔
پولیس کی جانب سے جب کارکنوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو کارکنوں نے پولیس پرپھتراؤ کیا۔ پولیس کی جانب سے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کی گئی جبکہ اس موقع پر فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
تحریک انصاف کے مشتعل کارکنوں نے جیل کی ایک گاڑی سمیت دو گاڑیوں کو آگ بھی لگائی۔
تحریک انصاف کے رہنما آصف ترین نے الزام عائد کیا کہ سکیورٹی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے پارٹی کا کارکن ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے ہیں تاہم جب سول ہسپتال کوئٹہ کے ایک اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں ایک لاش اور چارزخمیوں کو لایا گیا۔
ہلاک ہونے والے کارکن کی شناخت عمرعزیز کے نام سے ہوئی، جن کو پیشانی پر گولی لگی۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیرداخلہ نے بتایا کہ جھڑپوں کے دوران پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں تاہم وہ اس وقت ان کی تعداد نہیں بتا سکتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے احاطہ عدالت سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔
عدالت نے ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو کہا ہے کہ وہ اس واقعہ کا مقدمہ درج کروانے کے لیے پولیس حکام کو درخواست دیں۔