لاہور (ویب ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کی نئی جے آئی ٹی کو تحقیقات سے روکتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے پنجاب حکومت سے جواب طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد قاسم خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، جس کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نےبینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کی سو سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اہم مقدمے کے بارے میں عدالتی عملے نے ایڈووکیٹ جنرل آفس کو اطلاع تک دینا گوارا نہیں کیا، میں اونچی آواز میں اس لیے بول رہا ہوں تاکہ عدالت سب کچھ سُنے اور اگر مجھے نہ سنا گیا تو عدالت کا واک آوٹ کروں گا۔
بینچ کے رکن جسٹس ملک شہزاد احمد نے ایڈوکیٹ جنرل کے اونچی آواز میں بات کرنے پر ریمارکس دیے کہ آپ عدالت کو دباو میں لانا چاہتے ہیں، اپنی آواز نیچی رکھیں ورنہ توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے جائیں گے۔
بینچ کے رکن کے ریمارکس سُن کر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آپ مجھے توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں ۔ عدالت نے قرار دیا کہ فیصلے کو متعلقہ فورم پر چیلنج کرنا چاہئیں توکر سکتے ہیں۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے فیصلہ سنتے ہی عدالت سے واک آوٹ کیا۔ جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نے اختلافی نوٹ دیا۔
عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے جےآئی ٹی کی تشکیل کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے جواب طلب کر لیا۔
پولیس انسپکٹر رضوان اور کانسٹیبل خرم رفیق کے وکلاء نے موقف اختیار کیا تھا کہ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل سے متعلق سپریم کورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ نئی جے آئی ٹی کی وجہ سے ماڈل ٹاون کا ٹرائل متاثر ہوگا۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت نئی جے آئی ٹی کو کالعدم قرار دے اور عدالتی فیصلہ آنے تک نئی جے آئی ٹی کو تحقیقات سے روکا جائے۔
یاد رہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں نامزد ملزم نوازشریف سے دو روز قبل کوٹ لکھپت جیل میں تفتیش کی تھی قبل ازیں شہباز شریف نے بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ علاوہ ازیں جبکہ اس سے قبل خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید سے بھی پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
خیال رہےجی آئی ٹی کی تفتیش پر پرعدم اطمینان کے بعد 19 نومبر 2018 کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے نئی جے آئی ٹی بنانے کے لیے 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔حکومت کی جانب سے 5 دسمبر تک نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی یقین دہانی کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی تھی۔
قبل ازیں سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں نامزد ملزم نوازشریف، شہبازشریف ، حمزہ شہباز، راناثناءاللہ، دانیال عزیز، پرویز رشید اور خواجہ آصف سمیت دیگر 139 ملزمان کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ بعد ازاں 3 جنوری 2019 کو محکمہ داخلہ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نئی جے آئی ٹی تشکیل دی جس کی سربراہی آئی جی موٹر ویز اے ڈی خواجہ کو دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن کے مرکزی دفتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا تھا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔