نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ ان عام شہریوں کے مقدمات سویلین کورٹس میں بھیجے جن کے خلاف فوجی عدالتوں میں کیسز چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سویلین افراد کے خلاف مقدمات کی کارروائی فوجی عدالتوں میں کرنا انسانی حقوق کے بین اقوامی قانون کے خلاف ہے جس کی توثیق پاکستان نے بھی کی ہے۔ یہ قانون ملزمان کو شفاف اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق دیتا ہے۔
بدھ کو جاری ایک بیان میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیس نے 33 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کیا ہے جن کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
Pakistan: Don’t Try Civilians in Military Courts https://t.co/T2JCsF1cHI
— Human Rights Watch (@hrw) May 31, 2023
ان ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے حساس دفاعی تنصیبات پر حملہ کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور وہاں سے کمپیوٹرز دیگر آلات سمیت مختلف اشیا چوری کیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے مخصوص صورتِ حال کی بھی وضاحت کی گئی ہے جن میں بغاوت، جاسوسی اور حساس مقامات کی تصاویر بنانا شامل ہیں۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے لیکن یہ کارروائی غیر جانب دار اور آزاد عدالتوں میں کی جائے۔
لاہور ہائی کورٹ کا پی ٹی آئی کارکنان کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے لاہور سمیت پنجاب کے 11 اضلاع میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کی نظری بندی کے احکامات کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کےجسٹس صفدر سلیم شاہد نے ایک ہی نوعیت کی مختلف درخواستوں پر نو صفحات پر مشتمل فیصلہ جمعرات کو جاری کیا۔
جسٹس صفدر سلیم شاہد نے فیصلے میں پی ٹی آئی کی رہنما اور سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت دیگر افراد کی نظر بندی کے احکامات خلاف قانون قرار دیے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ہر سرکاری حکم نامے میں صرف ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کی رپورٹ کی بنیاد پر شہریوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔ ڈپٹی کمشنرز کا نظر بندی کا فیصلہ خود پبلک مینٹیس آرڈیننس 1960 کے سیکشن تین کی خلاف ورزی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کے حیران کن واقعات نے پر امن اور جمہوری ملک کی مسخ شدہ تصویر پیش کی۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ امن و امان قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری تھی۔
عدالت نے جن 11 اضلاع میں تحریکِ انصاف کے کارکنان کی نظر بندی کالعدم قرار دی ہے ان میں لاہور، وزیر آباد ، جھنگ ، شیخو پورہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، منڈی بہاالدین، گجرات، ننکانہ صاحب، گوجرانولہ اور نارووال شامل ہیں۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ ان اضلاع کے تمام نظر بند افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کو سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری پر ملک بھر میں افسوس ناک ردِ عمل سامنے آیا جب کہ حکومت نے اس واقعے پر بغیر سوچے سمجھے لا تعداد افراد کی نظر بندی کے احکامات جاری کر دیے۔حکومت کے پاس اگر شواہد تھے تو فوج داری مقدمات میں گرفتاری کے لیے بہت وقت تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد خود پر لگنے والے الزامات سے باخبر ہوتے ہیں اور وہ اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔ بغیر مقدمات کے شہریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا بھی افسوس ناک ہے ۔