نئی دہلی + بیجنگ (اے ایف پی/رائٹرز) بھارت اور چین نے ایک دوسرے کے تقریباً تمام صحافیوں کو اپنے اپنے ہاں سے نکال دیا ہے۔ نئی دہلی نے آخری چینی صحافی کے ویزا کی مدت میں توسیع نہیں کی جبکہ بیجنگ نے بھارت کے اس اقدام کا ‘مناسب جواب‘ دینے کی وارننگ دی ہے۔
جنوبی ایشیا کے دو اہم پڑوسی ممالک بھارت اور چین کے درمیان فوجی کشیدگی کے بعد اب صحافت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں اپنی صحافتی ذمہ داریاں انجام دینے والے تقریباً تمام صحافیوں کو نکال دیا ہے۔
چین نے اس صورت حال کے لیے بدھ کے روز بھارت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ بھارتی حکومت نے چینی صحافیوں کے ویزے کی مدت جان بوجھ کر کم کر دی اور مئی 2020ء کے بعد سے کوئی نیا ویزا جاری نہیں کیا گیا۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”بھارت میں مقیم آخری چینی صحافی کے ویزے کی مدت بھی ختم ہو گئی ہے۔ ہمارے پاس اس کے جواب میں مناسب کارروائی کرنے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں بچا۔‘‘
ماؤ ننگ نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ بیجنگ کس طرح کی ‘مناسب جوابی کارروائی‘ کرے گا۔
اس سے ایک روز قبل امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل‘ نے یہ خبر شائع کی تھی کہ بھارت اور چین اپنے اپنے ہاں ایک دوسرے کے صحافیوں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ اس اخبار نے لکھا تھا کہ دونوں ممالک میں موجود ایک دوسرے کے صحافی اب تقریباً سارے ہی نکال دیے گئے ہیں۔
بھارت کا بھی کوئی صحافی چین میں نہیں بچا
بھارتی روزنامہ ‘ہندو‘ کے صحافی اننت کرشنن نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ چین میں اب ”صرف ایک ہی باقاعدہ تسلیم شدہ بھارتی صحافی رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ تعداد بھی جلد ہی صفر ہو سکتی ہے۔‘‘
قبل ازیں مئی میں بھارتی حکومت نے چین کے سرکاری میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے دو صحافیوں کو ویزے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں سے ایک شنہوا نیوز ایجنسی کے لیے اور دوسرے چین کے سینٹرل ٹیلی وژن کے لیے کام کرتے ہیں۔
بھارت کے چار صحافی اب بھی چین میں تسلیم شدہ ہیں لیکن ان میں سے دو کو بھارت آنے کے بعد واپس لوٹنے کے لیے ویزا جاری نہیں کیا گیا جب کہ تیسرے کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ ان کی ایکریڈیٹیشن منسوخ کر دی گئی ہے۔ تاہم وہ فی الحال چین میں ہی موجود ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت نے چینی صحافیوں کے ساتھ برسوں سے غیر منصفانہ برتاؤ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”چینی صحافیوں کے ساتھ برسوں سے بھارت میں غیر منصفانہ اور تفریق آمیز سلوک ہوتا رہا ہے۔ سن 2017ء میں بھارت نے کوئی وجہ بتائے بغیر چینی صحافیوں کے لیے ویزے کی مدت گھٹا کر پہلے تین ماہ اور پھر ایک ماہ کر دی تھی۔ بھارت کی طرف سے کی جانے والی اس ‘زیادتی‘ کے جواب میں چین کو بھی ‘مناسب کارروائی‘ کرنا پڑی تاکہ ‘چینی میڈیا کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کیا جا سکے‘۔
ماؤ ننگ نے کہا کہ حالات کو معمول پر واپس لانے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت چین کے ساتھ یکساں سمت میں کام کر سکتا ہے یا نہیں اور چینی صحافیوں کو بھارت میں مدد اور سہولیات فراہم کرا سکتا ہے یا نہیں۔‘‘
بھارت نے چینی وزارت خارجہ کے بیان پر فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ایک ذریعے نے امید ظاہر کی ہے کہ چین بیجنگ میں بھارتی صحافیوں کی موجودگی کو برقرار رکھنے میں معاونت کرے گا۔
بھارت اور چین کے مابین کشیدگی جاری
جون 2020ء سے ہی بھارت اور چین کے تعلقات میں کشیدگی ہے جب دونوں ملکوں کے فوجیوں کے مابین لداخ میں جھڑپ ہوئی تھی۔ اس میں کم از کم 20 بھارتی اور چار چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے فوجی حکام کے درمیان 18 مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا اور سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
چین نے بھارت میں اپنا نیا سفیر بھی اب تک مقرر نہیں کیا حالانکہ سابق سفیر سن ویئی ڈونگ گزشتہ برس ہی بیجنگ لوٹ گئے تھے۔
ادھر بھارت بھی مغربی ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ کواڈ گروپ میں شامل دیگر ممالک کے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت نے اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔ یہ تینوں ملک بھارت کو چین کے متبادل کے طورپر دیکھتے ہیں۔