رجب طیب اردگان نے تیسری مرتبہ ترک صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

انقرہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/ اے پی)رجب طیب اردگان نے اٹھائیس مئی کو صدراتی انتخابات میں اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیچ دار اولو کو واضح برتری کے ساتھ شکست دی تھی۔ اب انہیں مہنگائی، شامی مہاجرین کی وطن واپسی اور زلزلہ متاثرین کی بحالی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردگان نے ہفتے کے روز تیسری مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ اب وہ اپنی نئی پانچ سالہ مدت کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ ملک میں پارلیمانی نظام کے تحت ماضی میں تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں۔

69 سالہ اردگان نے اٹھائیس مئی کو صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل کر کے اپنی 20 سالہ حکمرانی کی مدت میں مزید اضافہ کیا تھا۔ پچاسی ملین آبادی کا ملک ترکی، مغربی فوجی اتحاد نیٹو میں دوسری سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ براعظم ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع یہ ملک لاکھوں شامی پناہ گزینوں کا میزبان بھی ہے اور اس نے روس سے جنگ کے دوران یوکرین سے اناج کی ترسیل کو یقنی بنا کر ایک عالمی خوراک کے بحران سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ایردوآن نے اپنے وسیع و عریض صدارتی محل کے احاطے افتتاحی تقریب میں شرکت سے قبل پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران حلف لیا۔ ان کے حامیوں نے دارالحکومت انقرہ میں موسلا دھار بارش کے باوجود پارلیمنٹ کے باہر ان کا انتظار کیا۔

سب کی نظریں اب ان کی نئی کابینہ کے اعلان پر لگی ہوئی ہیں۔ اس نئی کابینہ کی تشکیل سے ہی یہ بات واضح ہو سکے گی کہ آیا ان کی حکومت کی ماضی کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا یہ وہ روایتی اقتصادی پالیسیوں کی جانب واپس لوٹیں گے۔

اس تقریب میں شرکت کے لیے جو درجنوں غیر ملکی معززین انقرہ پہنچے ان میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اشٹولٹن برگ اور سابق سویڈیش وزیر اعظم کارل بلڈٹ بھی شامل ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ بلڈٹ سویڈن کی نیٹو رکنیت کے حوالے سے اردگان کے اعتراضات کے خاتمے کی کوشش کریں گے۔ خیال رہے کہ نیٹو میں کسی نئے رکن کی شمولیت کے لیے اس اتحاد میں پہلے سے موجود تمام ارکان کی منظور ضروری ہے۔

اس کے علاوہ ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان، آذربائیجان کے صدر الہام علییف، وینیزویلا کے صدر نکولاس مدورو، جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا، آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان، پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ شامل ہیں۔

اردگان کی حلف برداری ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب انہیں ایک تباہ حال معیشت، لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور چھ فروری کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

فروری میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے میں 50,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ملک کے جنوب حصے میں تقریباﹰ تمام بڑے شہر زمین بوس ہو گئے تھے۔

اردگان نے 28 مئی کو ہونے والے رن آف ووٹ میں حزب اختلاف کے حریف کمال کلیچ دار اولو کو شکست دی تھی۔ اس سے قبل 14 مئی کو ووٹنگ کے پہلے راؤنڈ میں کوئی بھی امیدوار واضح طور پر کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ کِلیچ دار اولو نے ترکی کو مزید جمہوری راستے پر ڈالنے اور اس کے مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو آزادانہ لیکن منصفانہ نہیں سمجھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں