بغداد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) شدت پسند تنظیم ‘داعش’ کے 50 جنگجوؤں اور اس کے متعدد ارکان کے 168 رشتے داروں کو شام سے عراق واپس منتقل کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق داعش کے ان ارکان کو عراقی حکام نے شام میں موجود کرد افواج ’سیرئین ڈیموکریٹک فورسز ‘(ایس ڈی ایف) کی مدد سے واپس ملک منتقل کیا ہے۔ان افراد کے خلاف ان کے جرائم کی تحقیقات کی جائیں گی اور انہیں عراق کے قانونی نظام کے تحت سزا دی جائے گی۔
شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ’سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ ان جنگجوؤں کو شمال مشرقی شام کے علاقے ہساخے سے حراست میں لیا گیا تھا۔
عراق میں حکام کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کے 168 رشتے داروں کو شام کے الہول کیمپ سے موصل کے جنوب میں الجدعا کیمپ منتقل کیا گیا ہے، جہاں ان کا نفسیاتی علاج کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق ایک بار جب انہیں قبائلی رہنماؤں سے یقین دہانی مل جائے گی کہ ان افراد کو انتقام کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تو انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔
الہول کیمپ کردوں کے زیرِ کنٹرول شمال مشرقی شام میں لگ بھگ 50 ہزار افراد کا گھر ہے جن میں مشتبہ جہادیوں کے خاندان کے افراد بھی شامل ہیں۔ ان میں بے گھر شامی اور عراقی پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ لگ بھگ 60 ممالک کے 10 ہزار سے زائد غیر ملکی موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مارچ میں الہول کیمپ میں قیام پذیر افراد کی فوری ان کے آبائی علاقوں میں واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔
گوتریس کا عراق کے دورے کے دوران کہنا تھا کہ کیمپ کی تقریباً نصف آبادی 12 سال سے کم عمر بچوں کی ہے اور رہائشی اپنے حقوق سے محروم ہونے کے علاوہ انتہائی پسماندہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ کہنے میں کوئی شک نہیں کہ آج دنیا میں موجود بد ترین کیمپ الہول ہے۔ جہاں لوگوں کے لیے بد ترین حالات اور برسوں سے وہاں پھنسے ہوئے لوگوں کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ مئی 2021 سے سینکڑوں خاندانوں کو الہول کیمپ سے عراق کے الجدعا کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے۔
سال 2014 سے 2017 کے درمیان عراق کے ایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھنے والے انتہا پسند گروپ میں شامل ہونے والے جنگجوؤں کے رشتے داروں کی عراق واپسی پر تنقید بھی کی گئی ہے۔
عراقی حکام نے دسمبر 2021 میں الجدعا کیمپ کو بند کرنے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا۔ تاہم اس سلسلے میں بہت کم پیش رفت ہوئی اور بے گھر لوگوں کی ان کے آبائی علاقوں میں منتقلی ایک چیلنج ثابت ہوئی ہے جب کہ دوسری طرف مقامی لوگوں کی طرف سے مخالفت کا باعث بنی ہے۔