بغداد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے اتوار کے روز بغداد کے دورے کے دوران اہم اتحادی عراق کے ساتھ انسانی امداد اور منشیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف جنگ کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔
شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد کا دورہ عراق کئی اعتبار سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب سالوں سے خانہ جنگی کا شکار عرب ملک شام، برسوں کی سفارتی تنہائی سے باہر نکلا ہے۔ ابھی حال ہی میں عرب لیگ کے 22 رکن ممالک نے اس اتحاد سے شام کی رکنیت کی معطلی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس امر پر رضامندی کے چند ہفتوں بعد ہی شامی وزیر خارجہ اتوار چار جون کو عراقی دارالحکومت بغداد پہنچے۔
Syria's foreign minister on Sunday discussed humanitarian aid and combating the illegal drugs trade with key ally Iraq during a visit to Baghdad as Damascus emerges from years of diplomatic isolation.https://t.co/IH9P2ovNbi
— AFP News Agency (@AFP) June 4, 2023
عرب لیگ میں واپسی کے بعد صدر بشار الاسد کو برسوں کی خانہ جنگی کے بعد دوبارہ علاقائی سطح پر ایک فعال سیاسی لیڈر کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
عراق شام کے عرب بائیکاٹ کے دوران دمشق کا اتحادی رہا اور اس نے شام سے کبھی بھی تعلقات منقطع نہیں کیے اور شام کی خانہ جنگی کے دوران، خاص طور پر اسلامک اسٹیٹ گروپ کے خلاف لڑائی میں دو طرفہ قریبی تعاون برقرار رکھا۔
اتوار کو عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بغداد عرب لیگ میں شمولیت کی واپسی کی ”ابتداء کرنے والوں میں سے ایک‘‘ تھا۔
باہمی دلچسپی کے امور
عراق اورشام کے وزرائے خارجہ نے شامی پناہ گزینوں کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا جو جنگ شروع ہونے کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان میں سے بہت سے اب عراق کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان اور ترکی میں بھی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
پناہ گزینوں
عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے کہا، ”ہمیں تقریباً 250,000 پناہ گزینوں کو پناہ فراہم کرنا پڑی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان میں سے اکثریت عراق کے نیم خود مختار کردستان کے علاقے میں کیمپوں میں رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلا قدم شام میں انسانی امداد پہنچانے کا عمل ہو گا، جو جنگ اور چھ فروری کو آنے والے زلزلے سے تباہ ہو چکا ہے اور جس نے ترکی کو بھی متاثر کیا۔ اس زلزلے سے دونوں ممالک میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
لقاء مهم جمعني اليوم في بغداد بأخي معالي وزير الخارجية فيصل المقداد وزير خارجية سوريا،تحدثنا فيه عن أهمية العلاقات بين بلدينا الشقيقين،وكيفية الانطلاق بتعزيز علاقات سوريا مع المجتمع الدولي بعد عودة مقعدها في الجامعة العربية،مؤكدين على أهمية اعادة الاستقرار والتنمية لسوريا الشقيقة pic.twitter.com/uoFcYpqYtS
— Fuad Hussein | فؤاد حسين (@Fuad_Husseein) June 4, 2023
شامی وزیر خارجہ مقداد نے زلزلے کے بعد عراق کی ”یکجہتی‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور دو طرفہ تعلقات کی ”ترقی‘‘ کو بھی سراہا۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم دہشت گردی سے نمٹنے اور منشیات سے لاحق خطرے کو ختم کرنے کے لیے تعاون جاری رکھیں گے۔‘‘
اُدھر عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ مقداد کی عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی اور صدر عبداللطیف راشد سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
منشیات کی اسمگلنگ میں اضافہ
اس عرب خطے میں پچھلے سالوں میں منشیات کی اسمگلنگ میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔ عراقی محافظوں نے مارچ میں شام کے ساتھ سرحد پر تین ملین سے زیادہ کیپٹاگون گولیاں قبضے میں لی تھیں۔
سکیورٹی کوآرڈینیشن کے علاوہ، بغداد اور دمشق پانی سمیت دیگر اہم مسائل پر ہم آہنگی جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کو خطرناک قلت کا سامنا ہے۔
پڑوسی ممالک میں ڈیموں کی تعمیر اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے دونوں ممالک میں پانی کے بہاؤ کو ڈرامائی طور پر کم کر دیا ہے، جس سے زراعت میں شدید خلل پڑ رہا ہے اور مسلسل اقتصادی چیلنجز کے شکار دونوں ممالک کومعاشی بدحالی کے خطرات لاحق ہیں۔
عرب ممالک عراق اور شام دونوں کے درمیان 600 کلومیٹر (370 میل) غیر محفوظ صحرائی سرحد مشترک ہے جہاں آئی ایس (داعش) کی شکست کے برسوں بعد بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔