تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز) ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق فتاح نامی میزائل چودہ سو کلو میٹر تک ہر قسم کے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صدر رئیسی اور پاسداران انقلاب کے کمانڈروں نے منگل چھ جون کو اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔
ایران میں حکام نے مقامی طور پر تیار کردہ پہلا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل منگل چھ جون کو نمائش کے لیے پیش کیا۔ تہران حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا یہ قدم، اس کی میزائل صلاحیتوں کے بارے میں مغربی خدشات کو بڑھا سکتا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا نے فتاح نامی میزائل کی ایک تقریب میں رونمائی کی تصاویر شائع کیں۔ اس تقریب میں صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈروں نے شرکت کی۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے پاسداران کی ایرو اسپیس فورس کے سربراہ امیر علی حاجی زادہ کے حوالے سے بتایا، ”فتاح ہائپرسونک میزائل کی رینج 1,400 کلومیٹر ہے اور یہ ہر قسم کی دفاعی ڈھال کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا تیز اور پیچیدہ رفتار پر پرواز کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ سال اسلامی جمہوریہ نے کہا تھا کہ اس نے ایک ایسا ہائپر سونک بیلسٹک میزائل تیار کیا ہے، جو فضا کے اندر اور باہر جا سکتا ہے۔ سرکاری ٹی وی نے کہا کہ ایران کا فتح میزائل ‘دشمن کے جدید میزائل شکن نظام کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ میزائلوں کی نسل کے اس میدان کی ایک بڑی چھلانگ ہے۔‘‘
ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق، ”یہ اسرائیل کے آئرن ڈوم سمیت امریکہ اور صیہونی حکومت کے جدید ترین اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم کو نظرانداز کر سکتا ہے۔‘‘ مزید کہا گیا ہے کہ کہ فتاح کی رفتار 15,000 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
امریکی اور یورپی مخالفت کے باوجود ایران نے کہا ہے کہ وہ اپنے دفاعی میزائل پروگرام کو مزید ترقی دے گا۔ تاہم مغربی عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران بعض اوقات اپنی میزائل صلاحیتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ یہ ایران کے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری سے متعلق خدشات ہی تھے، جن کی وجہ سے سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ عالمی طاقتوں کی دو ہزار پندرہ میں ایران کے ساتھ کی گئی نیوکلئیر ڈیل سے سن دوہزار اٹھارہ میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
ٹرمپ نے ایرا ن کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران پر دوبارہ امریکی پابندیاں عائد کر دیں، جس کے نتیجے میں تہران نے اپنی جوہری سر گرمیاں بحال کردیں اور امریکہ، یورپ اور اسرائیل کو بھی ایک مرتبہ پھر اس تشویش میں مبتلا کر دیا کہ ایران ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔
ایران اس طرح کے عزائم کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ تہران اور امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے درمیان جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے بالواسطہ بات چیت گزشتہ ستمبر سے تعطل کا شکار ہے۔
اسرائیل عالمی طاقتوں کی طرف سے تہران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کی کوششوں کی مخالفت کرتا ہے اور طویل عرصے سے دھمکی دیتا رہا ہے کہ اگر سفارت کاری ناکام ہو جاتی ہے تو فوجی کارروا ئی کرے گا۔