واشنگٹن ڈی سی (ڈیلی اردو/وی او اے) “امریکہ میں نئے افغان پناہ گزینوں کے خصوصی و یزے کی مدت اگست یا ستمبر 2023 میں ختم ہو رہی ہے جس کے بعد وہ اس ملک میں قانونی طور پر رہنے کا حق کھو دیں گے ۔ اس کے بعد وہ نہ تو یہاں کوئی ملازمت کر سکیں گے ، نہ ان کے پاس کوئی ڈرائیونگ لائسنس ہو گا نہ وہ کوئی ہیلتھ انشورنس رکھ سکیں گے اور وہ غیر قانونی تارکین وطن کو اس ملک میں پیش آنے والی تمام مشکلات کا سامنا کریں گے” ۔ یہ کہنا ہے امیگریشن اور ریفیوجیز کے ادارے’ لوتھرن امیگریشن اینڈ ریفیوجیز’ کے ڈائریکٹر خالص نوری کا۔
خالص نوری نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹر ویو میں نئےافغان پناہ گزینوں میں سے 70 ہزار کے ,دو سا ل کے رہائشی ویزے کی مدت کے عنقریب ختم ہونے پر تشویش کا اظہار کیا لیکن ساتھ ساتھ کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایسے تمام افغان پناہ گزین اپنے عارضی رہائشی اسٹیٹس کی توسیع کے لئے فوری طور پر درخواستیں دائر کریں۔
لیکن ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ درخواستیں دائر کرنا ان افغان پناہ گزینوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے جو نہ تو انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں نہ ہی انہیں یہ معلوم ہے کہ درخواستیں کیسے اور کہاں جمع کرائی جائیں خاص طور پر دیہی علاقوں میں مقیم پناہ گزینوں کے لئے یہ ایک مشکل کام ہے۔اور ایک پریشان کن بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو تویہ بھی علم نہیں کہ ان کے ویزوں کی مدت عنقریب ختم ہونے والی ہے۔
افغانستان سے 2021 کے عجلت میں کئے گئے امریکی انخلا کے بعد امریکہ نے اپنے وعدے کے مطابق ان ہزاروں افغان شہریوں کو امریکہ لانے کا فوری بندو بست کیا جنہوں نے ایک عرصہ تک وہاں موجود امریکی فورسز کے ساتھ، مترجم کے طور پر یا کسی بھی حیثیت میں کام کیا تھا۔
انہیں یہاں لانے کےلئے انہیں دو سال کا عارضی رہائشی اسٹیٹس دیا گیا جس دوران یہ توقع کی گئی کہ وہ حکومت ، فلاحی تنظیموں اور خود اپنی کوشش سے کسی روزگار کا بندو بست کر سکیں گے اور اپنے اور اپنے خاندان کی کفالت احسن طریقے سے کر سکیں گے۔
حکومت اور فلاحی ادارے اور امریکی کمیونٹیز ان افغان پناہ گزینوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لئے مختلف انداز میں مدد کر رہے ہیں لیکن اس وقت جو سب سے زیادہ سنگین صورتحال ان پناہ گزینوں کو درپیش ہے وہ چند ماہ میں ان کے رہائشی اسٹیٹس کی مدت کا خاتمہ ہے۔
عارضی رہائشی اسٹیٹس کی مدت ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟
یہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال ہو گی لوتھرن امیگریشن اینڈ ریفیوجیز کے ڈائریکٹر خالص نوری نے کہا کہ اگر فوری طور پر ان افغان پناہ گزینوں نے درخواستیں جمع نہ کرائیں تو وہ اس ملک میں قانونی طور پر رہنے کا حق کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی ملازمت ، اپنی ہیلتھ انشورنس، اپنا ڈرائیونگ لائسنس اور قانونی حیثیت کے پناہ گزینوں کے لئےحکومت کی طرف سے دی جانے والی مالی معاونت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
انہوں نے کہا اگرچہ یہ امکان تو نہیں ہے کہ دوسرے غیر قانونی تارکین وطن کی طرح انہیں ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا لیکن جو کچھ بھی ہو گا وہ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے یہ اعلان تو کر دیا گیا ہے لیکن ان افغان پناہ گزینوں کے لئے درخواستیں جمع کرانے میں کسی قسم کی معاونت فراہم کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ اور ان جیسے دوسرے ادارے اس سلسلے میں کچھ کوششیں شروع کر چکے ہیں لیکن صرف چند ماہ میں 70 ہزار لوگوں کے لئے خواہ کتنے ہی ادارے اور کمیونٹیز معاونت کی کوششیں کریں وہ ان سب کے لئے یہ کام پورا نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان کی درخواستیں جمع ہو بھی جاتی ہیں مگران کے ویزو ں میں توسیع دو سال کی مدت گزرنے کے چند ماہ بعد یا کچھ عرصے بعد ہوئی تو انہیں اس وقت انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جب اگلے دس سال بعد وہ امریکی شہریت کے لئے درخواست جمع کرائیں گے۔
کیوں کہ ان کے ساتھ چند ماہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے کا لیبل موجود رہے گا ، جو ان کے لئے شہریت کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے مطابق امریکہ میں اب تک 88500 سے زیادہ مترجم اور افغانستان میں امریکی فوج کے پاس دوسرے شعبوں میں ملازمت کرنے والے افغان شہریوں کو امریکہ منتقل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے بیشترکو ہیومینیٹیرئن پے رول نامی ایک پروگرام کے تحت رکھا گیا ہےجو انہیں قانونی حیثیت اور روزگار دلانے میں مدد کرتا ہے۔
افغان ایڈ جسٹ مینٹ ایکٹ، جو افغان شہریوں کے امیگریشن پراسس کو تیز کرنے سے متعلق ایک مجوزہ قانون ہے ، کانگریس میں التوا کا شکار ہے۔ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق اس سال اپریل کے آخر تک افغانستان سے امریکہ آنے والوں کی پناہ یا خصوصی ویزے کی صرف تقریباً 8100 درخواستیں منظور ہوئی تھیں۔
خصوصی ویزے حاصل کرنے والے نئے افغان مہاجرین کے مسائل
جہاں تک ان نئے افغان پناہ گزینوں کا تعلق ہے جن کےلئے کسی نہ کسی روزگار کا بندو بست ہو چکا ہے انہیں بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
“میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک خصوصی ایمر جینسی جہاز میں بیٹھ کر کئی ملکوں سے ہوتا ہوا امریکہ آیا ہوں۔ امریکہ نے ہمیں یہاں لانے اور ہماری حفاظت کا وعدہ تو پورا کر دیا ہے لیکن ہماری زندگی میں وہ بہتری نہیں آئی ہے جس کی امید پر ہم یہاں آئے تھے” ۔
یہ الفاظ تھے افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ایک سابق افغان فوجی افسر نذیر کے جو ہیوسٹن کے ایک گروسری اسٹور میں کام کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اور افغانستان سے امریکہ آنے والے ان جیسے بہت سے دوسرے افغان پناہ گزین اگرچہ اپنے کاغذات کی تکمیل کے بعد کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہو کر اپنی گزر اوقات کررہےہیں لیکن ان کے معاشی اور طبی مسائل ابھی تک ان کی زندگیوں میں مشکلات کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
نذیر نے بتایا کہ امریکی حکومت نے شروع شروع میں ان کی اور ان کے آٹھ بچوں کی فیملی کی مددکی تھی اور اب فوڈ اسٹیمپ کی مدد سے گروسری اسٹورز سے کھانے پینے کا کچھ سامان بھی مل جاتا ہے لیکن ان کے لئے اس نوکری سے گھر کا کرایہ ادا کرنا اور باقی خرچ پورے کرنا انتہائی مشکل ہے۔
اس کے علاوہ ان کی بیوی سخت بیمار ہے جس کی ایک بڑی سرجری کروانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اس کی حالت دن بدن گرتی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری زندگی میں کب بہتری آئے گی ہمیں دور دور تک اس کا کوئی امکان نہیں دکھائی دیتا۔
امریکہ میں آنے والے افغان پناہ گزینوں کو یہاں آباد ہونے کے دوران کچھ دوسری قسم کے قانونی مسائل بھی پیش آرہے ہیں جنہیں حل کرنے کے لیے ان کے پا س مالی وسائل نہیں ہیں۔
ہیوسٹن ہی میں ایک گیس اسٹیشن پر کام کرنے والے میر آغا مہدی نے وی او اے کو ایسی ہی کہانی سنائی۔
انہوں نے کہا وہ افغانستان سےامریکی انخلا سے کچھ سال قبل امریکہ میں اپنے نو افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ ٓآئے تھے اور کچھ عرصہ پناہ گزین کے طور پر گزارنے اور اپنے کاغذات کی تکمیل کے بعد اب وہ ایک روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
لیکن وہ پریشان ہیں کہ ان کے بیٹے کو اپنی کمیونٹی کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ لڑائی ہونے پر پولیس نے گرفتار کر لیا ہے اور اب ان کے پاس اسے وہاں سے آزاد کرانے کے لیے درکار قانونی کارروائی کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
نئے افغان پناہ گزینوں کو اپنی نئی کمیونٹیز میں اور ان کے بچوں کو اسکولوں میں اپنے ہم جماعتوں کی جانب سے مسائل کا سامنا بھی ہو رہا ہے۔
نئے افغان مہاجرین کے مسائل کی وجوہات ایک نہیں بہت سی ہیں
اس بارے میں ورجینیا کے ایڈمز سنٹر کی افغان ریفیوجیز ٹاسک فورس کی رکن ذرمینا حمیدی نےجو ورجینیا میں پناہ گزینوں کے غیر منافع بخش ادارے لوتھرن امیگریشن اینڈ ریفیوجی سروس سے وابستہ ہیں، اور 2021 میں افغانستان سے آنے والے نئے پناہ گزینوں کی آباد کاری میں کیس مینیجر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان نئے افغان پناہ گزینوں کی جتنی بڑی تعداد امریکہ میں جتنے کم وقت میں پہنچی ہے اس کے لئے نہ تو امریکی حکومت اور نہ ہی امریکی کمیونٹیز تیار تھیں۔ اور نہ ہی وہ افغان پناہ گزیں امریکی طرز زندگی سے واقف تھے۔
انہیں اس ملک کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ وہی تھیں جو انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کی تھیں اور ان کا خیال تھا کہ وہ یہاں آتے ہی ایک شاندار زندگی گزارنے لگیں گے اور انہیں سب کچھ آسانی سے دستیاب ہو جائے گا۔
لیکن ظاہر ہے نہ تو وہ یہاں کی زبان سے واقف ہیں، نہ یہاں کے کلچر کا براہ راست تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں ان کے لئے صرف چند ماہ میں انگریزی زبان پر مہارت حاصل کرنا، کوئی روزگار حاصل کرنا، اور اپنے دوسرے قانونی اور مالی مسائل حل کرنے کے قابل ہونا ایک تقریباً ناممکن بات ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ انہیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے اور حکومت تنہا ان کے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی اور اسی لیے وہ مختلف فلاحی تنظیموں کو اس کام میں اپنے ساتھ شامل کر رہی ہے۔
افغان ریفیوجیز کے لئے امریکی حکومت کے پروگرام
2021 کے پناہ گزینوں کی امریکہ میں آباد کاری کے لئے امریکی حکومت کے پروگراموں پر روشنی ڈالتے ہوئے خالص نوری نے بتایا کہ امریکی حکومت اس ضمن میں مختلف پروگراموں پر عمل کر رہی ہےاور مختلف انداز کی فنڈنگ کر رہی ہے۔ لیکن دو پروگرام خاص طور پر قابل ذکر ہیں
اے پی اے، یاافغان پلیس مینٹ اینڈ اسسٹنس پروگرام
یہ وہ پروگرام ہے جس کے تحت امریکی حکومت نے نئے آنے والے افغان مہاجرین کو 30 سے 90 دن تک اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے کے لئے مالی معاونت فراہم کی ۔ جس دوران انہیں، خوراک، مکان کے کرائے، میڈیکل انشورنس، اور ان کے بچوں کے اسکولوں میں داخلے میں مدد کی گئی۔
فیڈرل میچنگ گرانٹ
اگر اس مدت تک وہ کوئی روزگار تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو انہیں پانچ ماہ کے ایمپلائمنٹ پروگرام میں شامل کیا جاتا ہے جہاں انہیں روزگار تلاش کرنے کے لئے دوسرے عطیات دہندگان کی مدد کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں آفس آف ریفیوجی ری سیٹل مینٹ بھی مالی اور قانونی معاونت فراہم کرتا ہے۔
فلاحی اداروں کی نئے افغان پناہ گزینوں کے لئے کی جانے والی کوششیں
خالص نوری نے بتایا کہ اس وقت امریکہ بھر میں مختلف فلاحی اور غیر منافع بخش ادارے حکومت کے ساتھ ان نئے افغان پناہ گزنیوں کی امریکہ میں آباد کاری میں مدد کر رہے ہیں جن میں ورجینیا کونسل آف مسلم آرگنائزیشن، افغان ریفیوجیز ٹاسک فورس، افغان ریفیوجیز کرائسس کمیٹی یو ایس اے افغان الائی ریفیوجی کو آرڈی نیشن گروپ، نیشنل ریلیف این جی اوز، افغان امریکن گروپس، امریکن مسلم گروپس شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ ان سب تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے اور اب تک وہ ورجینیا میں ان نئے افغان پناہ گزینوں میں سے 1400 کی آباد کاری میں مدد کر چکا ہے۔
افغانستان کے نئے آنے والے پناہ گزینوں کی معاونت کے حوالے سے امریکہ میں مسلم کمیونٹی کا ایک ممتاز ادارہ اسلامک ریلیف یو ایس اے بھی کوشاں ہے۔
ادارے کے سینئیر کمیونی کیشنز اینڈ میڈیا اسپیشلسٹ سید ایم حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے نے متعدد اداروں کے ساتھ مل کر لاس اینجلس، نیو یارک سٹی، ڈیلس، اور سیکرامینٹو میں ان نئے افغان مہاجرین کو امداد فراہم کی ہے۔یہ وہ علا قے ہیں جہاں بہت سے پناہ گزین رہ چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ادار ے نے 2022 میں افغانستان کے 168 پناہ گزینوں کی مدد کی۔ اپنے پارٹنرز چرچ ورلڈسروسز کی مدد سے ہم نے ان میں سے 129 کو ورجینیا میں، تین کو کیلی فورنیا، چھ کو فلوریڈا ،12 کو اوکلاہوما اور 19 کو وسکانسن میں آباد ہونے میں مدد کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے ادارے نے افغانستان سے آنے والے نئے پناہ گزینوں کو 5000 جائے نمازیں، 5500 ہائیجین کٹس، ایک لاکھ نئےلباس، گھریلو استعمال کی 12000 اشیا اور 9700 گرم کوٹ اور خوراک کے تقریباً 6000 باکس تقسیم کئے۔
ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی میں مسلم کمیونٹی کی ایک ممتاز غیر منافع بخش تنظیم ایڈمز سنٹر کے بین العقائد، گورنمنٹ اور میڈیا ریلیشنز کے شعبے کے چئیرمین رضوان جاکا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم متعدد اداروں کے ساتھ مل کر ان افغان پناہ گزینوں کی مدد کےلئے کام کررہی ہے جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوجوں کی مدد کی تھی اور جنہیں امریکی حکومت یہاں امریکہ میں لا چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 13 اگست 2021 سےمدد کی اس کوشش میں ہزاروں رضاکار شامل ہو چکے ہیں۔
اس سلسلے میں تمام عقائد کے لوگ ،فوج اور سابق فوجی ان تمام فوجی مراکز پر مدد کے لئے کام کر رہے ہیں، کپڑے اور دوسری ضروریات کی اشیا کے عطیات فراہم کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ افغان امریکی میڈیکل ڈاکٹرز، وکلا اور مترجم فوجی اڈوں پر مدد فراہم کر رہے ہیں۔ افغان گرین کارڈ ہولڈرز کی مدد کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں جن کے پاس گزر اوقت کے لیے کچھ نہیں او ر جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔
2021 میں اپنے وطن افغانستان سے عجلت میں امریکہ آنے والے افغان پناہ گزینوں کو ایک نئے وطن میں قانونی طور پر آباد ہونے ،یہاں کی زبان سیکھنے، یہاں کے کلچر میں ضم ہونے اور یہاں کے روزگار کے اسٹرکچر میں اپنی جگہ بنانے اور وہ زندگی حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا جس کا خواب ساتھ لے کر وہ امریکہ آئے تھے؟
اس بارے میں حالات کچھ زیادہ اچھے اشارے نہیں دے رہے تاہم زرمینا حمیدی کہتی ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے افغانستان میں امریکی فورسز کی اس وقت مدد کی تھی جب انہیں اس کی اشد ضرورت تھی۔
اور اب جب وہ امریکی حکومت کی جانب سے مدد کے وعدے پر اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ کر اس سر زمین کو اپنا نیا وطن بنانے کےلئے آگئے ہیں توضرورت ا س بات کی ہے کہ انکی مطلوبہ منزل تک کےسفر کے دوران انہیں وہی عزت اور احترام دیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔