اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) افغانستان میں طالبان حکام نے اتوار کو پاکستان سے آئے ہزاروں پناہ گزینوں کو سرحدی صوبوں سے دور منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکہ“ کے مطابق ان پناہ گزینوں پر افغانستا کی زمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا الزام ہے۔
افغان خبر رساں ایجنسی ”خاما پریس“ نے ان پناہ گزینوں کو کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو قرار دیا ہے۔
طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے چار جون کو وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ (پاکستان سے آئے) مہاجرین اس وقت خوست، کنڑ اور کچھ ملحقہ افغان سرحدی صوبوں میں مقیم ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امارت اسلامیہ انہیں (افغانستان کے) دور دراز صوبوں میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کی (سرحد) لائنوں تک رسائی نہ ہو اور نہ ہی وہ پاکستان میں ہونے والے حملوں یا تشدد کی کسی دوسری کارروائی میں ملوث ہوں۔
خامہ کے مطابق، طالبان ٹی ٹی پی کے ارکان کو شمالی افغانستان میں زمین فراہم کریں گے، اور پاکستان زرعی آلات کی خریداری اور آبادکاری کے سامان کی مالی معاونت کرے گا۔
پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے رہنما افغان صوبے کنڑ میں موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے پاک افغان سرحد پر مقیم عسکریت پسندوں کو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں بسانے کی پیشکش کی ہے تاکہ ان کی سرحد پار رسائی آسان نہ رہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ طالبان نے حکومتِ پاکستان کو یہ پیشکش دو ماہ قبل کی تھی۔
یہ منصوبہ تقریباً 22 ماہ قبل کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے بعد سے پاکستان میں سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے حملوں میں ڈرامائی اضافے کے درمیان سامنے آیا ہے۔
ان حملوں اور دہشتگرد حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خاص طور پر افغان سرحد کے قریبی اضلاع میں تعینات پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جو مبینہ طور پر افغان سرزمین سے کام کر رہی ہے، اس نے زیادہ تر دہشتگرد کارروائیوں کا سہرا اپنے سر لیا ہے۔
اسلام آباد کا کابل پر دباؤ
اسلام آباد سرحد پار سے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں لگام لگانے کے لیے کابل پر دباؤ ڈال رہا ہے اور مسلسل شکایت کر رہا ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد اس دہشتگرد گروہ کو ”زیادہ آپریشنل آزادی“ حاصل ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ارکان بھی سرحد پار سے حملوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کرتے رہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد اور دیگر طالبان عہدیداروں نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ کسی بھی گروپ کو افغانستان کے پڑوسیوں بشمول پاکستان یا کسی دوسرے ملک کو دھمکیاں دینے کی اجازت دے رہے ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ طالبان کی تجویز پاکستان تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو محدود کر سکتی ہے
عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی جسے پاکستانی طالبان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اس کی شورش کا مقصد حکومت کا تختہ الٹنا ہے اور جسے اس سنے ”غیر اسلامی“ قرار دیا ہے۔
واشنگٹن نے بھی ٹی ٹی پی کو ایک عالمی دہشت گرد تنظیم کے طور پر بھی کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔
تصفیہ کے مذاکرات ختم
ٹی ٹی پی افغان طالبان کی ایک شاخ اور قریبی اتحادی ہے۔ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے فوراً بعد طالبان نے تصفیہ کے مذاکرات کے لیے ٹی ٹی پی رہنماؤں اور پاکستانی حکام ک کی میزبانی کی۔
لیکن یہ عمل گزشتہ نومبر میں اس وقت ختم ہو گیا جب پاکستانی طالبان نے حکومت کے ساتھ یکطرفہ متزلزل جنگ بندی ختم کر دی اور اپنی پرتشدد مہم کو تیز کر دیا۔
ٹی ٹی پی کی دہشتگردانہ سرگرمیوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے، جو دو طرفہ اور ٹرانزٹ تجارتی سرگرمیاں کرنے کے لیے پڑوسی ملک کے زمینی راستوں اور بندرگاہوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔
کابل کی جانب سے ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو سرحد سے دور منتقل کرنے کی تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغان طالبان کی ثالثی میں حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں۔
اپریل میں پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔
افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کررکھا ہے۔
افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا اور مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات بھی کیے گئے تھے، جس کے تحت ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کی پاکستان میں دوبارہ آبادکاری کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم مقامی آبادی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر شدید ردعمل دیا گیا تھا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی پاکستان میں آبادکاری عمران خان اور ان کی حکومت کی حکمتِ عملی تھی جسے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی بھی حمایت حاصل تھی لیکن یہ کوشش ناکام ہو چکی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دفاع کرتی رہی ہے۔