تل ابیب + غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) پیر کے روز اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے کے ایک پناہ گزین کیمپ پر دھاوا بول دیا جس سے شدید لڑائی چھڑ گئی۔ فلسطینیوں نے سڑک کنارے بموں کے دھماکے کیے اور اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں نے کئی گھنٹوں کی اس لڑائی میں پھنسے اپنے فوجیوں کو چھڑانے کے لیے فلسطینیوں پر حملے کیے۔
محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ برسوں بعد یہ سخت ترین لڑائی کا دن تھا، جس میں ایک 15 سالہ لڑکے سمیت 5 فلسطینی ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے۔
فلسطینیوں کے اسلامی جہاد نامی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اس کے تین عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بتایا کہ اس کی فورسز نے دو مطلوب عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے علی الصبح جنین کے پناہ گزین کیمپ پر دھاوا بولا لیکن انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
فوج نے بتایا کہ آٹھ اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے۔
فلسطینی عسکریت پسندوں نے کہا ہے کہ انہوں نے دھماکہ خیز ڈیوائسزکے ذریعے اسرائیل کی متعدد بکتر بند گاڑیوں کو ناکارہ بنا دیا اور اسرائیلی فوجی ان میں پھنس کر رہ گئے۔
عینی شاہدین نے بیان کیا کہ اسرائیلی فوج نے جنین میں ابن سینا اسپتال سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر فلسطینیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس میں تین افراد زخمی ہوئے
ہسپتال کے ڈائریکٹر توفیق الشوبکی نے اسرائیلی افواج کے بارے میں کہا”وہ کسی بھی چیز پر اور ہر حرکت کرنے والی چیز پر گولی چلا رہے تھے ۔”
اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ دی ہے کہ تقریباً دو دہائیوں قبل جب فلسطینیوں نے دوسری بار بغاوت کی تھی اس کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں ہیلی کاپٹر گن شپ کا یہ پہلا استعمال تھا۔ جینن پناہ گزین کیمپ جو طویل عرصے تک عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے ،شدید لڑائیوں کی زد میں رہا ہے ۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ ہیلی کاپٹروں نے فلسطینی بندوق برداروں پر اس وقت فائرنگ کی جب سکیورٹی فورسز ، کیمپ سے تباہ شدہ گاڑیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
فلسطینی عسکریت پسندوں نے سڑک کے کنارے ایک طاقتور بم دھماکہ کر کے اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا، جس سے پانچ بکتر بند گاڑیاں ناکارہ ہوگئیں، اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیکٹ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ایسے دھماکہ خیز آلات کا استعمال ،انتہائی غیر معمولی اور ڈرامائی تھا۔
آزاد انہ طور پر کام کرنے والے فلسطینی صحافی، حازم ناصرکو جس نے واضح طور پر پریس کے نشان والی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، گولی مار کر شدید زخمی کر دیا گیا ۔ اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ اسے ایک عمارت کے باہر گولی ماری گئی جہاں صحافی جو اس واقعے کی کوریج کر رہے تھے اسرائیلی فائرنگ کی زد میں آئے۔
اس کے ساتھی ،فری لانس صحافی علاء بدرنہ کا کہنا تھا کہ یقیناً بہت زیادہ فائرنگ اور دھماکے ہورہے تھے لیکن سب جانتے تھے کہ ہم صحافی ہیں اور اس کی کوریج کر رہے ہیں کہ اچانک فوج نے ہمیں گھیر لیا اور ہماری جانب فائرنگ شروع کر دی۔
جائے وقوعہ پر موجود ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک صحافی نے بتایا کہ اس نے دیکھا کہ حازم ناصرکو فوج نے براہ راست گولی ماری۔
اس بارے میں جب دریافت کیا گیا تو اسرائیلی فوج نے کہا کہ طبی عملے یا صحافیوں پر گولی چلائے جانے کا انہیں علم نہیں اور وہ اس کی چھان بین کر رہے ہیں۔
فوج کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے خطرہ سامنے پاکر مجبوراً گولیاں چلائیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ نیم فوجی سرحدی پولیس اور فوج کےٓٹھ ارکان کو معمولی زخم آئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ہسپتال میں زخمی فوجیوں کی عیاد ت کی اور افواج کی تعریف کی۔انہوں نے کہا اسرائیل دہشت گردی کا مقابلہ قوت اور عزم سے کر رہا ہے۔
فلسطینی قیادت اور بعض عرب ممالک نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔
ایک سینیئر فلسطینی اہلکار حسین الشیخ نے اسرائیل پر فلسطینی عوام کے خلاف ،شدید اور کھلی جنگ، شروع کرنے کا الزام لگایا ۔
مصر کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف جاری چڑھائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے صورتحال مزیدخراب ہو گئی ہے اور علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچاہے۔
تقریباًایک سال سے زیادہ عرصے میں تشدد کے ان روزانہ واقعات میں یہ تازہ ترین تھا ،جو مغربی کنارے میں تباہی کا سبب بنے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی کئی مہینوں سے تشدد کی لپیٹ میں ہیں، جس کا مرکز مغربی کناراہے، جہاں اس سال 124 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں،جبکہ اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کے حملوں میں اس سال کم سے کم 20 افراد ہلاک ہو ئے ہیں۔