واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین انتہا پسند حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
As the world’s oldest and largest democracies and as key security providers in the Indo-Pacific, the United States and India are a combined force for global good.
Today’s State Visit will take U.S.-India ties to the next level as we build the future we want to see. pic.twitter.com/ShGPZ3DcqP
— The White House (@WhiteHouse) June 23, 2023
دونوں رہنماؤں کی جمعرات کو ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری مشترکہ بیان کے مطابق صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد پراکسیز کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانےکےلیے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا کہ اس کے زیرِ کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردحملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔
This morning, joined by thousands of Indian-American attendees from across the United States, we welcomed Prime Minister Modi to the People’s House. pic.twitter.com/l3qcEJpUSi
— President Biden (@POTUS) June 23, 2023
مشترکہ بیان کے مطابق صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ کیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے بائیڈن اور مودی نے ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ حملوں کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
سال2016 میں بھارت کے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہونے والے حملے میں بھارت کےسات سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
واضح رہے کہ جوہری ہتھیاروں سےمسلح پڑوسی ملکوں بھارت اور پاکستان کے تعلقات برسوں سے کشیدہ ہیں۔ 1947 میں برصغیر پاک و ہند میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگیں مسلم اکثریتی کشمیر پر ہوئی ہیں جس کے پورے حصےپر دونوں ہی کادعویٰ ہے لیکن کشمیر جزوی طور پردونوں ملکوں کے زیرِ انتظام ہے۔
بھارت برسوں سے پاکستان پر ان مسلم عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے جو 1980 کی دہائی کے اواخر سے بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر کے حصے میں بھارتی سکیورٹی فورسز سے برسرپیکار ہیں۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہےاس کا مؤقف ہے کہ وہ حقِ خود ارادیت کے خواہاں کشمیریوں کی صرف سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے۔
بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو 2019 میں اس وقت منسوخ کر دیا تھا جب نئی دہلی نے اسے وفاق کے زیر کنٹرول دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پاکستان اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور اسے واپس لینے پر زور دیتا ہے۔
بھارت کے اس فیصلے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں کمی آئی ہے۔