نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعہ کو مراکش اور اسپین پر الزام لگایا کہ وہ سرحد پر اپنے نسل پرستانہ طرز عمل کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ دونوں ملک میلیلا کی سرحد پر تارکین وطن کی ہلاکتوں کی صحیح طریقے سے تحقیقات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ہلاکتوں کے تقریباً چھ ماہ بعد منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ان واقعات کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرائم کے طور پر بیان کیا گیا ہے، اور دونوں ممالک کی جانب سےکی جانے والی تحقیقات کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔زیادہ تر تارکین وطن ،سرحدی حکام ،انسانی سمگلروں اور سمندری نگرانوں کی غفلتوں کا شکار ہوئے ہیں۔
ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ ،پاکستانی تارکین وطن کے ساتھ بھی پیش آیا جب انکی کشتی گزشتہ ہفتے یونان کے قریب ڈوب گئی۔اس پر تقریباً ساڑھے تین سو پاکستانی سوار تھےبہت سے لاپتہ ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ہلاک ہو گئے ہوں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے قومی اسمبلی میں قانون سازوں کو بتایا کہ 14 جون کو کشتی ڈوبنے کے وقت ایک اندازے کے مطابق 700 تارکین وطن اس پرسوار تھے۔ 12 پاکستانیوں سمیت صرف 104 افراد کو بچا لیا گیا اور 82 لاشیں نکالی گئیں۔
جہاز پر سوار افراد کی کل تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے بھی انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے جنہوں نے ماہی گیری کی کشتی پر پاکستانیوں کے لیے سفر کا انتظام کیا، جن میں سے اکثر یورپ میں ملازمت کی تلاش میں نکل تھے۔ اب تک، پولیس نے اس کیس کے سلسلے میں کم از کم 17 مشتبہ اسمگلروں کو گرفتار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ متاثرین نے اسمگلروں کو سفر کے لیے $5,000 سے $8,000 کے درمیان رقم ادا کی۔
یونان کو بھی کڑی تنقید کا سامنا ہے کہ بین الاقوامی پانیوں میں ڈوبنے سے قبل اس نے تارکین وطن کو بچانے کی کوشش نہیں کی ۔ اپنے دفاع میں ایتھنز کے حکام کہتے ہیں کہ مسافروں نے کسی قسم کی مدد لینے سے انکار کیا تھا اور اٹلی جانے پر اصرار کیا تھا۔
بحری جہاز کے عملے کے مشتبہ نو مصری افراد یونان میں مقدمے کی سماعت سے قبل حراست میں ہیں جن کو مجرمانہ فعل میں حصہ لینے، قتل عام اور جہاز کو تباہ کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
سپین اور مراکش کی سرحد پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ “ہم نہ صرف (اجتماعی) قتل کی بات کر رہے ہیں بلکہ حکومتیں بھی ان ہلاکتوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں”۔
یہ ہلاکتیں اس وقت ہوئیں جب 24 جون کو مراکش کی جانب سے میلیلا کی سرحد پر تقریباً 2,000 تارکین وطن نے دھاوا بول دیا۔۔ اس کوشش میں کم از کم 37 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 76 ابھی تک لاپتہ ہیں۔
اسپین نے اپنی سرزمین پر کسی جانی نقصان کی تردید کی ہے۔جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ تمام واقعات یورپی سرزمین پر پیش آئے۔
گروپ کا کہنا تھا کہ اسپین نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات نہیں کی کیونکہ ہسپانوی پراسیکیوٹرز نے یہ کہتے ہوئے تفتیش ترک کر دی کہ انہیں ہسپانوی سیکورٹی فورسز کی طرف سے مجرمانہ بدانتظامی کے کوئی ثبوت نہیں ملے ۔ گروپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہ مراکش نے کبھی بھی تحقیقات کا آغاز نہیں کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا، کہ چونکہ سپین اور مراکش کے درمیان تعاون ہے اس لے مراکش کی طرف سرحد پر حکام ،سیاہ فام سب صحارا افریقی باشندوں کو سرحدی چوکی پر روکتے رہتے ہیں تاکہ وہ پناہ کی درخواست دینے کے لیے ہسپانوی سرزمین تک نہ پہنچ سکیں
اگنیس کالمارڈ کا کہنا تھا کہ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ یورپ کی سرحدوں پر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ نقل مکانی کی نسل پرستان پالیسیوں کا مقصد سرحدوں کو مضبوط کرنا اور یورپ میں حفاظت کے خواہاں لوگوں کے لیے محفوظ اور قانونی راستوں کو محدود کرنا ہے،جس کے مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔