برسلز (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) یورپی یونین کے سفارت کاروں نے ایران پر واضح کر دیا ہے کہ اس کے خلاف بیلسٹک میزائل پروگرام کے باعث عائد کردہ عالمی پابندیاں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ ان پابندیوں کی موجودہ مدت اس سال اکتوبر میں پوری ہو رہی ہے۔
تہران کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ پھر 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جو جوہری معاہدہ ہوا، اس میں یہ بھی طے ہو گیا تھا کہ بیلسٹک میزائلوں سےمتعلق یہ پابندیاں اکتوبر 2023ء میں اٹھا لی جائیں گی۔
تاہم ایرانی جوہری معاہدے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2018ء کے ایک فیصلے کے تحت امریکہ کے یک طرفہ اخراج کے بعد اس حوالے سے جو حالات دیکھنے میں آئے، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد جمود کا شکار ہو گیا اور اس کی بحالی کے لیے اب تک کی گئی جملہ سفارتی کوششیں بھی ناکام ہی رہی ہیں۔
یہ اسی پس منظر میں ہوا کہ یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اب ایران کو اطلاع کر دی ہے کہ اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے باعث عائد پابندیاں موجودہ حالات میں اپنے نظام الاوقات کے مطابق اس سال اکتوبر میں ختم نہیں ہوں گی بلکہ آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
اس کا مستقبل قریب میں ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ ایران، جو اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی جوہری ڈیل میں طے شدہ حد سے کہیں زیادہ شرح تک افزودگی بحال کر چکا ہے، مشتعل ہو کر جوابی اقدامات کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔
یورپی فیصلے کی وجوہات
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس موضوع پر اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان پابندیوں کے مستقبل میں بھی تسلسل کے لیے یورپی سفارتی ذرائع نے جو تین مرکزی وجوہات بتائیں، وہ یہ ہیں: روسی یوکرینی جنگ میں روس کا یوکرین کے خلاف ایرانی ڈرونز استعمال کرنا، ایران کا ممکنہ طور پر روس کو بیلسٹک میزائل مہیا کرنا اور تہران حکومت کو ان فوائد سے محروم کرنا جو اسے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کرتے رہنے سے حاصل ہو سکتے تھے۔
یورپی یونین کے اعلیٰ سفارتی ذرائع کے مطابق تہران کے خلاف یہ پابندیاں آئندہ بھی جاری رکھنے سے مغربی دنیا یہ واضح کر دے گی کہ وہ 2015ء کے جوہری معاہدے کے تقریباﹰ ناکام ہو جانے کے باوجود ایران کو ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔
ممکنہ ایرانی ردعمل
ایک اعلیٰ مغربی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ”ایران کو یہ بات (پابندیوں کا تسلسل) تو کھل کر بتا دی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تہران اس کے جواب میں کس طرح کے اقدامات کر سکتا ہے اور مغربی دنیا ان کا بروقت درست اندازہ کیسے لگا سکتی ہے؟‘‘
ایران کے خلاف ان پابندیوں کی موجودہ مدت اس سال 18 اکتوبر کو پوری ہونا ہے۔ یہ پابندیاں اقوام متحدہ کی منظورہ کردہ اس قرارداد کا حصہ ہیں، جس میں 2015ء کے جوہری معاہدے کے کلیدی نکات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف ان پابندیوں کے باوجود ایران 2017ء سے اب تک بیلسٹک میزائلوں کے کئی ٹیسٹ بھی کر چکا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔
اس سال مئی میں تو تہران حکومت نے ایک ایسا نیا میزائل بھی لانچ کیا، جو ممکنہ طور پر دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔