برسلز (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) یورپی یونین میں تارکینِ وطن سے متعلق مذاکرات میں دوسرے روز بھی اختلافات برقرار رہےجب پولینڈ اور ہنگری اس ماہ کے شروع میں یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو 27 رکن ممالک میں بانٹنے کے منصوبے پر ووٹنگ میں ناکامی کے بعد بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
اس صورت حال پر بعض یورپی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پولینڈ اور ہنگری برسوں پہلے شروع ہونے والی جنگ لڑ رہے ہیں، جب 10 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن یورپ میں داخل ہوئے تھےجن میں سے زیادہ تر پناہ گزین شام کی جنگ سے فرار ہو کر براعظم یورپ پہنچے تھے۔ سال 2015 میں مزید پناہ گزینوں کی آمد سے پیدا ہونے والی صورت حال نے یورپی بلاک کے ایک بڑے بحران کو جنم دیا تھا۔
دوسری جانب بعض رہنماوں کا کہنا ہے کہ پولینڈ اور ہنگری کو یورپی یونین کے قوانین کو توڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسٹونیا کے وزیر اعظم کایاکالس نے برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’مجھے یہ احساس تھا کہ سن 2015 سے نقل مکانی پر ہونے والی بحثوں کے بارے میں کافی تلخی موجود ہے۔”
“اگر آپ صرف ہر بات پر نہیں کہتے رہیں اور باقی سب (ارکان) سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتےرہیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔”
اس بارے میں سلووینیا کے وزیر اعظم رابرٹ گولوب نے کہا کہ “ہنگری مکمل طور پر اٹل تھا” کہ اس معاملے کو رہنماوں کے آخری سربراہی اجلاس کے اعلامیے سے مکمل طور پر ہٹا دیا جائے۔
گولوب نے تصدیق کی کہ یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل، جو سربراہی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں، ممکنہ طور پر چیئرمین کی حیثیت سے ایک الگ بیان جاری کریں گے جس کے لیے رکن ممالک کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
خیال رہے کہ اس ماہ کے شروع میں یورپی یونین کے ممالک نے پناہ کے قانون میں اصلاحات کے حوالے سے اس وقت پیش رفت کی جب بلاک نے اجازت کے بغیر یورپ داخل ہونے والے تارکین وطن کی ذمہ داری بانٹنے کے منصوبے پر ایک معاہدے کو منظور کر لیا۔
اس معاہدے نے ان ممالک کی ذمہ داری کو متوازن کیا جہاں زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن کارروائی کے لیے پہنچتے ہیں اور جہاں دوسرے اراکین کی ضرورت کے تحت ان کا مدد کے لیے اندراج کیا جاتا ہے۔ یہ امداد مالیاتی یا پناہ گزینوں کی میزبانی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔
معاہدے کے تحت تارکین وطن کو داخلہ دینے سے انکار کرنے والے ممالک اس کے بدلے ہر پناہ گزیں کے لیے 21,400 ڈالر ادا کر سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ تقریباً دو تہائی اکثریت کے ووٹ سے منظور کیا گیا۔ صرف پولینڈ اور ہنگری نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اس ہفتے جاری سربراہی اجلاس میں ان دو ملکوں کا مقصد اس فیصلے کے قانونی جواز کو چیلنج کرنا ہے۔
صورت حال پر بات کرتے ہوئے لکسمبرگ کے وزیر اعظم زاویئر بیتل نے کہا ہے کہ ان دو ارکان کی بات ماننا ایک خطرناک مثال قائم کرے گا۔
ادھر اجلاس سے قبل پولینڈ کے وزیر اعظم نے اصرار کیا تھا کہ ان کا ملک ہجرت سے متعلق یورپی یونین کے قوانین کو زبر دستی قبول نہیں کرے گا۔
انہوں نے ایسے کسی بھی منصوبے کو ویٹو کرنے کا عزم کیا جو ممالک کو پناہ گزینوں کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
وزیراعظم میتیوش مورویسکی نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ “یورپ پر حملہ ہو رہا ہے۔ یورپ کی سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے براعظم کے باشندوں کی حفاظت خطرے میں ہے۔”
پولینڈ کے رہنما نے کہا کہ وہ یورپی یونین کے لیڈرز کو “محفوظ سرحدوں کے لیے ایک منصوبہ” تجویز کریں گے۔
پولینڈ ، ہنگری اور جمہوریہ چیک نے سال 2015 میں عجلت میں دیے گئے تارکین وطن کوٹوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت نے 2020 میں فیصلہ دیا کہ وہ بلاک کے قوانین کا احترام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دریں اثنا، بغیر اجازت کے یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرحد اور ساحلی محافظ ایجنسی فرنٹیکس کے مطابق جنوری سے مئی تک مہاجرین کی طرف سے یورپی یونین آنے کی 50,300 سے زیادہ کوششیں کی گئیں۔ یہ پچھلے سال کی اسی مدت میں دگنی سے بھی زیادہ اور 2017 کے بعد سے سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس دوران پولینڈ یوکرین سے جنگ کے دوران آنے والے تقریبا 10 لاکھ پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔