پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) حالیہ مظاہروں کے بعد فرانس میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا گیا ہے، جس کے تحت اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر سمیت بیشتر آلات مشتبہ ملزمان کی جاسوسی کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔ کئی سیاسی اور سماجی حلقے اس قانون پر ناراض ہیں۔
فرانس میں منظور کیے گئے ایک نئے قانون کے تحت پولیس اہلکاروں کو اب یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ اسمارٹ فونز کے کیمروں، مائیکرو فونز، جی پی ایس لوکیشنز اور دیگر ایپس کے ذریعے مشتبہ افراد کی جاسوسی کر سکیں۔ پیرس میں ملکی پارلیمان نے بدھ کو رات گئے اس بارے میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دے دی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لیپ ٹاپ کمپیوٹرز، کاریں اور دیگر ایسے آلات، جو ایک دوسرے سے یاانٹرنیٹ سے کنیکٹ ہو سکتے ہوں، تمام کے ذریعے جاسوسی ممکن ہو سکے گی۔ جن افراد پر شبہ ہو گا، ان کی ڈیوائسز خودکار طریقے سے ریکارڈنگ شروع کر سکیں گی۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ قانون ایسے ملزمان سے متعلق چھان بین کے لیے استعمال کیا جا سکے گا، جن کے مشتبہ جرائم ثابت ہونے پر ایسے کسی بھی مجرم کو پانچ برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہو۔ اس قانون کا استعمال عموماً سلامتی سے متعلقہ امور اور مشتبہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا جائے گا۔
یہ قانون جاسوسی سے متعلق ایک وسیع تر قانونی پیکچ کا حصہ ہے، جس کی پارلیمان سے مجموعی توثیق ابھی باقی ہے۔ فرانسیسی حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پولیس کی طرف سے جاسوسی کے یہ اختیارات کسی جج کی اجازت کے بعد ہی استعمال کیے جا سکیں گے اور انفرادی سطح پر ان کی مدت چھ ماہ سے زائد نہیں ہو سکتی۔
بدھ کے روز قانون سازوں کے مابین پارلیمانی بحث کے دوران صدر ایمانوئل ماکروں کے حامیوں نے موقف اختیار کیا کہ اس طرز کی جاسوسی صرف اسی صورت مین کی جا سکے گی، جب ‘جرم کی نوعیت اور سنجیدگی‘ دونوں ہی اس قدر شدید ہوں کہ اس قانون کا استعمال جائز ہو۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ صحافی، جج، ڈاکٹر، وکلاء اور ارکان پارلیمان اس قانون کا ہدف نہیں بنیں گے۔
فرانس میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے اس قانونی بل پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم فرانسیسی گروپ La Quadrature du Net نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اس قانون کے ذریعے دمے جانے والے اختیارات بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ اس گروپ کے مطابق سلامتی، ذاتی زندگی اور ذاتی نوعتت کی گفتگو اور اس کے علاوہ آزادانہ نقل و حرکت یہ تمام کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔