بارسلونا (ڈیلی اردو) انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کیمینانڈو فرونٹیرس‘ کا کہنا ہے کہ 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں سمندر کے راستے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 49 بچوں سمیت کم از کم 951 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کیمینانڈو فرونٹیرس (واکنگ بارڈرز) کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ سمندر میں ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق 14 ممالک سے ہے جن میں الجیریا، کیمرون، کوموروس، جمہوری جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، گنی، آئیوری کوسٹ، مالی، مراکش، گیمبیا، سینیگال، سری لنکا، سوڈان اور شام شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق رواں سال کی پہلی ششماہی میں ہر روز اوسطاً پانچ افراد چار مختلف راستوں ’ کینری جزائر ‘، ’ البوران سمندر ‘، ’ الجزائر ‘ اور ’ آبنائے جبرالٹر ‘ پر سفر کرتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ جنوری اور جون کے درمیان 19 کشتیاں لاپتہ ہوئیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کینری جزائر‘ سے اسپین تک رسائی کا راستہ سب سے زیادہ ریکارڈ شدہ اموات کا باعث بنا اور 28 واقعات میں 778 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ البوران کے راستے پر اس عرصے میں ریکارڈ کیے گئے دو سانحات سے متاثرین کی تعداد 21 ہے۔ الجزائر کے راستے پر ہونے والے 8 سانحات کے نتیجے میں 102 جبکہ آبنائے جبرالٹر پر 11 سانحات میں 50 افراد ہلاک ہوئے۔ فروری اور جون سب سے زیادہ ہلاکتوں کے مہینوں میں پائے گئے جن میں بالترتیب 237 اور 332 افراد ہلاک ہوئے۔
تنظیم نے کہا کہ سرکاری ہسپانوی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پہلے چھ مہینوں میں کم کشتیوں کی آمد ہوئی لیکن گزشتہ سال کے پہلے چھ مہینوں کے مقابلے میں 13 زیادہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ اسپین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پہلے چھ مہینوں میں 12,192 افراد کشتیوں کے ذریعے پہنچے جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں چار فیصد کم ہیں۔ کیمینانڈو فرونٹیرس نے اسپین اور مراکش کو ہم آہنگی کی کمی، بروقت تلاش اور بچاؤ کی کارروائیوں میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا. اس نے دیگر عوامل کو بھی درج کیا جو سانحات کا باعث بنے جن میں وسائل کی کمی اور بچاؤ کے کاموں میں خراب طرز عمل شامل ہیں۔
گروپ نے کہا کہ دونوں ممالک سمندر میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجائے “سیاست” سے زیادہ فکر مند ہیں۔
تنظیم نے 21 جون کو ہونے والے ایک واقعے کی مثال دی جو بحر اوقیانوس میں کینری جزائر سے تقریباً 160 کلومیٹر دور پیش آیا۔مراکش کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے سے کم از کم 36 افراد لاپتہ ہوئے تھے۔
گروپ نے کہا کہ مراکش کا ایک ریسکیو جہاز کشتی کے بارے میں پہلی وارننگ بھیجے جانے کے 10 گھنٹے بعد بھی نہیں پہنچا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں وہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے کچھ کو قید، جبری نقل مکانی، جسمانی حملے اور حراست کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ جن کی لاشیں برآمد کی جاتی ہیں انکو اجتماعی قبروں میں انکے مذہبی عقائد کے احترام کے بغیر دفن کیا جاتا ہے۔