واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے اور نیٹو کے دیگر لیڈروں نے دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ان کا اتحاد پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو کر ابھرا ہے۔
Thanks to Vilnius for hosting our historic #NATOSummit. We agreed to strengthen #NATO’s deterrence & defence, invest more in defence, bring #Ukraine closer to NATO membership, and deepen our partnerships around the world even more. We are more united than ever. pic.twitter.com/4eS70CCw44
— Jens Stoltenberg (@jensstoltenberg) July 12, 2023
انہوں نے یہ بات جمعرات کو یورپ کے اپنے دورے کے اختتام پر، جس کا مقصد روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ تھا، فن لینڈ میں صدر سالی نینیشتا کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہی۔
#NATOSummit in Vilnius is over. Thank you for being here!
A huge Lithuanian AČIŪ!!! ????#WeAreNATO???? pic.twitter.com/qL2Zfc7R2q
— Lithuania MFA | #StandWithUkraine (@LithuaniaMFA) July 12, 2023
صدر بائیڈن نے کہا “اتحادی سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی صرف یو کرین کے مستقبل کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تمام مشرقی یورپ اور دنیا بھر میں خود مختاری، سلامتی اور آزادی کے لیے بھی ہے۔ ”
اگرچہ یوکرین کی نیٹو کا رکن بننے کی خواہش پوری نہیں کی جاسکی تاہم صدر بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ نیٹو اتحاد کے دیگر ملکوں کے ساتھ معاہدے، خواہ وہ نیٹو کا رکن نہ بھی ہو، یو کرین کی طویل المدت سیکیورٹی میں مدد دیں گے۔
نیوز کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے پر زور انداز میں کہا کہ نیٹو کے لیے امریکہ کے عزم میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی خواہ اندرونِ ملک سیاست میں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات یا ریپبلکن پارٹی میں الگ تھلگ رہنے کے جذبات پائے جاتے ہیں، کتنے بھی اتار چڑھاؤ کیوں نہ آئیں۔
ایک صحافی کے اس سوال پر کہ آیا امریکہ، حکومت کی تبدیلی کے بعد نیٹو کا رکن نہیں رہے گا، صدر نے کہا، ” میں ضمانت دیتا ہوں کہ اس کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔”
انہوں نے کہا، ” نیٹو کے لیے امریکی عوام میں بہت حمایت پائی جاتی ہے اور امریکی کانگریس میں یعنی ایوان نمائندگان اور سینٹ میں بھی اس کے لیے ارکان کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔
صدر نے کہا،” مستقبل کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا مگر یہ بہترین یقین ہے جو کوئی دلا سکتا ہے۔”
اس سے پہلے صدر بائیڈن نے سویڈن، ناروے، ڈنمارک اور آئس لینڈ سمیت شمالی یورپ کے دیگر لیڈروں سے ملاقات کی۔
وہ ویلنئس، لتھوانیا میں دو روزہ نیٹو سربراہ اجلاس مکمل کرکے جسے انہوں نے ایک کامیابی قرار دیا تھا، ہلسنکی، فن لینڈ پہنچے تھے۔
فن لینڈ روانگی سے پہلے بدھ کے روز نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے صدر نے کہا تھا کہ انہیں اپنے دورے سے ایک اچھا احساس ہو رہا ہے کہ،” ہم نے اپنا طے شدہ ہر ہدف حاصل کیا۔”
صدر بائیڈن کے ساتھ ایک وسیع میٹنگ کے آغاز میں فن لینڈ کے صدر نینیشتا نے کہا کہ شمالی یورپ کے ان کے ہم منصبوں کا ایک بڑا مقصد تھا اور وہ یہ کہ،” سیکیورٹی کے لحاظ سے، ماحولیات کے لحاظ سے، اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے مستقبل کی ضمانت دی جائے۔”
صدر بائیڈن نے کہا، اس میٹنگ میں موجود ممالک کی نہ صرف تاریخ مشترک ہے بلکہ ہمارے چیلنجز بھی مشترک ہیں اور اگر میں فخریہ کہوں تو اقدار بھی۔”
بائیڈن فن لینڈ کا دورہ کرنے والے چھٹے امریکی صدر ہیں اس سے پہلے 55 لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں امریکہ اور سابق سوویت یونین اور امریکہ اور روس کے متعدد سربراہ اجلاس ہو چکے ہیں۔
سرد جنگ کے زمانے مین فن لینڈ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ایک غیر جانبدار ملک کا کردار ادا کر چکا ہے۔