اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سخت بیان کے بعد ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی آج ہفتے کو افغان طالبان پر الزام لگایا کہ وہ پڑوسی ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان پر الزام لگایا ہے کہ وہ دوحہ امن معاہدے کی ان شقوں پر عمل نہیں کر رہے جن کا تعلق افغان سرزمین کے دہشت گردانہ کاروائیوں کے استعمال نہ کرنے سے ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ آرمی چیف کا بیان اور خواجہ اصف کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ افغان طالبان سے تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن چاہتا ہے۔ لیکن مبصرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا کابل ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن بھی لے گا یا نہیں، کیونکہ ٹی ٹی پی بھی اپنا نظریاتی امیر افغان طالبان کے سربراہ کو ہی قرار دیتی ہے۔
پاکستان کے سخت بیانات
خواجہ اصف کے بیان سے پہلے آرمی چیف عاصم منیر نے کہا تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور انہیں نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہے. خواجہ آصف نے اپنی ایک ٹویٹ میں الزام لگایا کہ افغانستان نہ ہی بحیثیت ایک پڑوسی ملک اور نہ برادر مسلم ملک کے طور پر اپنے فرائض پورے کر رہا ہے اور یہ کہ کابل حکومت امن معاہدے کی بھی پاسداری نہیں کر رہی۔ خواجہ آصف نے شکوہ کیا کہ پاکستان 50 سے 60 لاکھ افغان مہاجرین کی 40 سال سے میزبانی کر رہا ہے، اس کے بدلے میں جو دہشت گرد پاکستانیوں کا خون بہاتے ہیں انہیں افغان سرزمین پر پناہ ملتی ہے۔
افغانستان ھمسایہ اور برادر ملک ھونے کا حق نہیں ادا کر رہا اور نہ ھی دوہہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ھے. 50/60 لاکھ افغانوں کو تمامتر حقوق کیساتھ پاکستان میں 40/50 سال پناہ میسر ھے. اسکے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دھشت گردوں کو افغان سر زمین پہ پناہ گائیں میسر ھیں. یہ صورت…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) July 15, 2023
خواجہ اصف نے خبردار کیا کہ اس طرح کی صورتحال زیادہ عرصے نہیں چل سکتی۔ خواجہ اصف کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کی حفاظت کے لیے تمام طرح کے وسائل استعمال کرے گا اور اقدامات اٹھائے گا۔
’معاملہ مذاکرات سے حل ہونا چاہیے‘
خواجہ اصف کے اس بیان سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ پاکستان ممکنہ طور پر ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر حارث نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ معاملات مذاکرات سے حل ہوں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طرح افغان طالبان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوں لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی طرح کا ملٹری ایکشن صرف آخری آپشن کے طور پہ استعمال ہونا چاہیے۔‘‘
نظریہ، ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لینے کی وجہ
حارث نواز کے مطابق افغان طالبان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان انہیں کئی اشیاء بھیج رہا ہے اور بین الاقوامی طور پر ان کے سیاسی امیج کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے: ”لیکن اس کے باوجود نظریاتی وجوہات کی بنا پر افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہیں لے رہے، کیونکہ دونوں نے مل کر امریکہ کے خلاف جنگ لڑی۔ تاہم پاکستان میں حکومتی حلقوں کو ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہ لینے پر سخت تشویش ہے۔ اس تشویش میں حالیہ حملوں کے بعد مزید اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا افغان طالبان کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے۔‘‘
افغان طالبان کا خوف
ایک افغان صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”افغان طالبان کبھی بھی ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لیا تو وہ داعش کے ساتھ مل سکتی ہے جس کی وجہ سے افغان طالبان کے لیے پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔‘‘
اس افغان صحافی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے درمیان اندرونی طور پر بہت سارے مسائل چل رہے ہیں جبکہ ملک کے معاشی حالات بھی بہت برے ہیں: ”ایسے میں افغان طالبان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ایک لڑائی کا نیا محاذ کھولیں اور ٹی ٹی پی کے خلاف ہتھیار اٹھائیں جنہوں نے امریکی حملے کے بعد طالبان کی مدد کی تھی۔‘‘
طالبان دوسرے ممالک کی طرف دیکھ سکتے ہیں
اس افغان صحافی کا دعویٰ تھا کہ اگر پاکستان نے افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی کو ٹارگٹ کیا تو وہ افغان طالبان کی ممکنہ طور پر سپورٹ کھو سکتا ہے: ”یہ تاثر غلط ہے کہ جن کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتے ہیں وہ کسی ایک فرد یا ادارے کے وفادار ہوتے ہیں۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، تو افغان طالبان پاکستان کی آئی ایس آئی پرانحصار کرتے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی لڑائی نہیں روکی اب اگر پاکستان افغان طالبان پر مزید دباؤ ڈالے گا تو وہ ایران، روس چین یا کسی اور ملک سے شراکت داری کر سکتے ہیں، جس کا پاکستان کو نقصان ہوگا۔‘‘
اسلام اباد سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر بکارے نجم الدین اس افغان صحافی کے اس تجزیے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان کے اندر ٹی ٹی کے خلاف ملٹری اسٹرائکس کیں، تو یہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ بکارے نجم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”طالبان کی قیادت دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ اندرونی طور پہ بالکل خود مختار ہے۔ اگر ٹی ٹی پی کو رکھنا افغان طالبان کے قومی مفادات اور ان کی خارجہ پالیسی کے لیے فائدہ مند ہوگا، تو وہ ان کو رکھیں گے اور پاکستان کے دباؤ پر وہ کسی طرح کا ایکشن ان کے خلاف نہیں لیں گے۔‘‘
ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان نے افغانستان میں کوئی فوجی کارروائی کی تو اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا، ”ایسی صورت میں افغان طالبان اور پاکستانی طالبان دونوں مل کر پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان میں عسکریت پسندی کا معاملہ بھی بہت سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔‘‘