برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) 33 سالہ جرمن خاتون کو اپنے بچوں کے ساتھ سن 2016 میں شام کا سفر کرنے اور دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے کا قصوروار پایا گیا تھا۔ فرینکفرٹ کی ایک عدالت نے داعش کے ساتھ تعلق رکھنے کے جرم میں انہیں دو سال قید کی سزا سنائی۔
فرینکفرٹ کی عدالت نے نام نہاد ‘اسلامی ریاست’ (داعش) کے ساتھ ماضی میں تعلق رکھنے کی بنا پر جرمن خاتون کو پیر کے روز دو سال کی معطل قید کی سزا سنائی۔ یعنی سزا کا نفاذ تاخیر سے ہو گا۔
جج نے سزا سناتے ہوئے کہا کہ جرمن ریاست ہیسے سے تعلق رکھنے والی 33 سالہ خاتون نے “تنظیم کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔”
خاتون نے ماں کے فرائض کی سنگین خلاف ورزی کی
استغاثہ کے مطابق خاتون نے سن 2016 کے موسم بہار میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے کے لیے شام کا سفر کیا۔ اس وقت داعش نے شام اور عراق کے وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کر رکھا تھا اور نام نہاد خلافت کے قیام کے اپنے منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا تھا۔
لارا ایچ نامی اس خاتون پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اس نے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی۔
جج نے کہا کہ، “اس نے ایک ماں کے طورپر اپنے فرائض کی سنگین خلاف ورزی کی۔”
خاتون کا شوہر بھی داعش کا جنگجو تھا اور اس جوڑے نے اس دہشت گرد تنظیم کے نظریات کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کی۔ بعد میں وہ ایک فضائی حملے میں اپنے بیٹوں کے سامنے ہی مارا گیا۔
لارا ایچ اور اس کے بچوں کو بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر بمباری کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شام سے فرار ہونے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ صحرا سے گزرتے ہوئے انہیں بعض اوقات زیر زمین سوراخوں میں پناہ لینا پڑتا تھا۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ انہیں سن 2018 میں کرد فورسز نے حراست میں لے لیا اور پھر شام اورعراق کی سرحد کے قریب واقع الحول پناہ گزین کیمپ لے جایا گیا۔
اس خاتون اور اس کے بچوں کو نومبر 2019 کے اواخر میں جرمن وفاقی دفتر خارجہ کے زیر اہتمام وطن واپسی کی مہم کے دوران واپس جرمنی لایا گیا۔
جرمنی میں داعش کے خلاف اقدامات
یہ مقدمہ جرمنی میں مقدمات کے اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جس میں ایسی خواتین شامل ہیں جنہوں نے شام اور عراق میں داعش کے زیر کنٹرول علاقوں کا سفر کیا تھا۔
جون میں ایک خاتون کو داعش کی رکنیت، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی میں مدد کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ 37 سالہ نادین کے نے ایک یزیدی خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور اس گروپ کے ساتھ رہتے ہوئے اسے “گھریلو غلام” بننے پر مجبور کیا تھا۔
سن 2021 میں ایک عدالت نے ایک نو مسلم جرمن خاتون کو اس لیے سزا سنائی تھی کہ اس نے ایک 5 سالہ یزیدی لڑکی، جسے اس نے اور اس کے شوہر نے غلام بنا رکھا تھا، کو دھوپ میں پیاس سے مرنے پر مجبور کردیا تھا۔ بعد میں اس کے شوہر کو بھی سزا سنائی گئی تھی۔