واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ہم نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیکھا کہ پاکستان میں یا سرحد کے ساتھ افغان پناہ گزین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہوں۔
جان کربی نے یہ بیان پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں پریس سیکریٹری کیرین جین پیری کے ہمراہ مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں دیا۔
Tune in for a briefing with Press Secretary Karine Jean-Pierre. https://t.co/3W1REYsLHk
— The White House (@WhiteHouse) July 17, 2023
جان کربی سے سوال کیا گیا تھا کہ پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی نے عدم استحکام پیدا کیا ہے، انہوں نے افغانستان پر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا ہے اور افغانستان میں ان کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
اس پر وائٹ ہاؤس کا کیا مؤقف ہے؟ کیا وائٹ ہاؤس ان لوگوں کو نشانہ بنانے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
جان کربی نے جواب دیا ہم نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیکھا کہ جس سے پاکستان میں یا اس سرحد سے متصل افغان مہاجرین دہشت گردی کی کارروائیوں کے مجرم ہیں، ہم اس زبردست فراخدلی پر پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ جس کا اس نے محفوظ جگہ کے متلاشی افغان شہریوں کے لیے مظاہرہ کیا، ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے جیسا کہ ہم دہشت گردی کے ان کو درپیش خطرات اور انسداد دہشت گردی سے متعلق ان کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی اوور دی ہورائزن ایونٹ ہونے یا نہ ہونے سے متعلق کوئی قیاس آرائی نہیں کروں گا، میرا مطلب صدر نے واضح کر دیا ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کے لیے اپنی فضائی کارروائی کرنے کی صلاحیت میں بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے جا رہے ہیں اور ہم اسے مؤثر طریقے سے استعمال کریں گے جہاں ہمیں اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔
امریکا کا بھی طالبان پر افغان سرزمین کو دہشتگردوں کی ’محفوظ پناہ گاہ‘ بننے سے روکنے پر زور
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کے روز ایک پریس بریفنگ کے دوران اس مؤقف کو دہرایا کہ طالبان انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کو قابو کرے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ میں اس پر کوئی خاص تبصرہ نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ہم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو دہشت گردانہ حملوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکے۔
امریکی حکام کی جانب سے یہ بیانات پاکستان کی فوج کی جانب سے افغانستان پر عسکریت پسندی میں اضافے کا الزام عائد کرنے کے ایک روز بعد سامنے آئے ہیں، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو پڑوسی ملک میں حاصل پناہ گاہیں اور جدید ہتھیار کی دستیابی پاکستان کی اندرونی سلامتی متاثر کرنے والی بنیادی وجوہات ہیں۔
پاکستان نے بارہا سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، حالیہ بیان میں فوج نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ افغانستان میں موجود حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور دوحا معاہدے کی پاسداری کرے گی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 258ویں کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ہمسایہ ملک میں ٹھکانے ہیں، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپ پاکستان میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
کانفرنس میں کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے اور وہ جدید ترین ہتھیاروں کے حصول میں کامیاب رہی ہے جب کہ دہشت گرد افغانستان میں آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔
ڈان کی رپورٹ میں عسکری ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ افغان طالبان کی کالعدم ٹی ٹی پی کو لگام ڈالنے میں ناکامی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بے امنی کی نئی لہر کی بڑی وجہ ہے۔
ذرائع نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں میں ملوث عسکریت پسند ایم-16 رائفلیں اور اسپورٹنگ یونیفارم استعمال کر رہے تھے جو عام طور پر امریکی فوج استعمال کرتی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کے روز بھی افغانستان کو ہمسایہ اور برادر ملک کے طور پر اپنے فرائض میں غفلت برتنے اور دوحا امن معاہدے میں کی گئی طے کردہ ذمے داریوں کو نظر انداز کرنے، خاص طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے میں ناکامی پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
گزشتہ سال نومبر میں حکومت پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ بندی کے خاتمے کے بعد ملک میں اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔