لندن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) برطانیہ میں پورٹ لینڈ کی بندرگاہ پر ایک بحری جہاز لنگر انداز ہوا ہے، جو پانچ سو تارکین وطن کو عارضی رہائش فراہم کرنے کے کام آئے گا، جبکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ نے پناہ گزینوں کی آمد کو روکنےسے متعلق ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے، جسے متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں اقدامات وزیر اعظم رشی سونک کی اس حکمت عملی کا حصہ ہیں، جس کے تحت تارکین وطن کو چھوٹی کشتیوں میں انگلش چینل عبور کرنے کی ہلاکت خیز کوششوں اور برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔
یہ بل برطانیہ کے شاہ چارلس سوم کی جانب سے منظوری کے بعد قانون بن جائے گا۔ برطانیہ کی کنزرویٹو حکومت نے ان چھوٹے بحری جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کو روکنے کا عزم کیا ہے جو شمالی فرانس سے برطانیہ رہنے کی امید کےحامل تارکین وطن کو لے کر آتی ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کی جانب سے تارکین وطن کے دباو پر قابو پانے کے لیے طویل بحث کے بعد بل کی منظوری دی گئی۔
واضح رہے کہ سال 2022 میں 45 ہزار سے زیادہ لوگ انگلش چینل عبو ر کر کے برطانیہ میں داخل ہوئے تھے، ان میں سےکئی اس کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
یہ بل تارکین وطن کو خطرناک سفر اور برطانیہ میں پناہ کی درخواست سے روکے گا۔ اس بل کے تحت اگر وہ غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوئے تو پکڑے جانے والوں کو واپس ان کے وطن یا کسی تیسرے محفوظ ملک میں بھیج دیا جائے گا اور ان پر برطانیہ میں داخل ہونے پر ہمیشہ کے لیے پابندی عائد کر دی جائے گی۔
حکومت نے غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے والوں میں سے کچھ کو روانڈا بھیجنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن گزشتہ ماہ اپیل کورٹ نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اب حکومت اس فیصلے کے خلاف برطانوی سپریم کورٹ میں اپیل کر رہی ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک نے بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کشتیوں کو روکنے کےہمارے کام کا ایک اہم حصہ ہے۔
یہ بل ایک طویل بحث کے بعد منظور کیا گیا ہے۔ اب اس بل میں ترمیم تو کی جا سکتی ہے لیکن اس قانون سازی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔
ہوم آفس کے انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ اور ہاؤس آف لارڈز کے رکن سائمن مرے نے اپنے رفقائے کار پر بل کی منظوری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے پناہ کے نظام پر بہت بوجھ ہے اور ہم ٹیکس دہندگان پناہ کے متلاشیوں کے لیے یومیہ چھ ملین پاؤنڈز ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ” اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو گا کہ ان کےلیے برطانیہ میں رہنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے تو وہ اپنی زندگیوں کو داؤ پر نہیں لگائیں گے اور یہاں غیر قانونی طور پر پہنچنے کے لئےمجرموں کو ہزاروں پاؤنڈز ادا نہیں کریں گے۔”
انہوں نے کہا کہ “اس لیے ان کشتیوں کو روکنے اور کمزور لوگوں کا استحصال کرنے والے جرائم پیشہ گینگز کے بزنس ماڈل کو توڑنے کا یہ ہی ایک طریقہ ہے۔”
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اور مہاجرین سے متعلق اداروں کے سربراہوں نے کہا ہے کہ یہ بل بین الاقوامی قوانین کے تحت برطانیہ کی زمہ داریوں سے متصادم ہے اور پناہ کے متلاشی تارکین وطن کے لئے اس کے ‘گہرے اثرات’ ہونگے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی نے کہا کہ برطانیہ کئی دہائیوں سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ضرورت مند افراد کو پناہ مہیاکر رہا تھا، یہ ایسی روایت ہے جس پر برطانیہ کو فخر ہونا چاہئے تھا، لیکن نئی قانون سازی اس قانونی راستے کو ختم کر رہی ہے، جس نے اتنے بہت سے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا، اس سے مہاجرین کے لئے نئے خطرات پیدا ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے خبر دار کیا کہ یہ قانون ایسے بچوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کا راستہ روک دے گا، جو پناہ کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ والدین موجود ہی نہیں ہیں۔ ممکن ہے ان میں کچھ بچے انسانی سمگلروں سے جان بچا کر نکلے ہوں۔
دوسری طرف بیبی سٹاک ہوم نامی بحری جہاز کو انگلستان کے جنوب مغربی ساحل کے قریب سے پورٹ لینڈ بندرگاہ میں کھینچ کر لایا گیا۔ بیبی اسٹاک ہوم بحری جہاز میں، توقع ہے کہ دو ہفتوں میں لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ منگل کو بندر گاہ پر اس کی آمد پر اس کے دو مخالف گروپس نے مظاہرے کیے۔
ایک گروپ کا کہنا تھا کہ اس جہاز پر رکھے جانے والے پناہ کے متلاشیوں سے ان کے شہر کا ماحول متاثر ہو سکتا ہے۔
ایک دوسرے گروپ اسٹینڈ اپ ٹو ریسزم ،نے کہا کہ وہ پناہ گزینوں کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن اس کا اعتراض یہ تھا کہ یہ جہاز ایک جیل کی طرح ہے۔