صومالیہ میں ملٹری اکیڈمی پر خودکش حملہ، 30 فوجی ہلاک، 60 زخمی

موغادیشو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) موغادیشو میں ایک ملٹری اکیڈمی پر خودکش حملے میں 20 سے 30 فوجیوں کے ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ القاعدہ سے منسلک شدت پسند گروپ الشباب برسوں سے صومالیہ کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں ہے۔

شدت پسند ملیشیا الشباب سے تعلق رکھنے والے ایک خودکش بمبار نے پیر کے روز صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں واقع جعل صیاد نامی ملٹری اکیڈمی پر حملہ کیا، جس میں متعدد فوجیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

اس حوالے سے ملنے والی مختلف اطلاعات کے مطابق حملے میں 20 سے 30 کے درمیان فوجی ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور اس عمارت میں داخل ہوا، جہاں صومالی فوج کی 14ویں انفنٹری بریگیڈ جمع تھی۔ ان کے پاس پہنچ کر اس نے اپنی بارود سے بھری جیکٹ کو دھماکے سے اڑا دیا۔

صومالی فوج کے ایک رکن محمد حسن نے بتایا، ”جب دھماکہ ہوا، تو میں اس وقت فوجی کیمپ کے پاس ہی تھا اور ہم جائے وقوعہ کی طرف بھاگے، یہ بہت ہی خوفناک تھا۔” ان کا مزید کہنا تھا، ”اب بھی تحقیقات جاری ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔”

صومالیہ کی پارلیمان کے قانون سازوں نے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ تعزیت کی ہے۔ ایوان کے ڈپٹی اسپیکر عبدوحی عمر ابشیرو نے اسے ”ایک قومی المیہ” قرار دیا۔

پارلیمنٹ کے ایک اور رکن محمد ابراہیم المعلمو کا کہنا تھا: ”متاثرین کوئی عام نوجوان نہیں تھے، وہ سروس مین تھے جو دہشت گردوں سے اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔”

کمزور تاہم الشباب اب بھی بہت مہلک ہے

القاعدہ سے وابستہ اسلامی دہشت گرد گروپ الشباب مشرقی افریقی ممالک میں سخت شرعی قانون کے نفاذ کے مقصد سے سن 2007 سے ہی

ایک خونریز شورش میں صومالیہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گرچہ سن 2011 میں الشباب کے جنگجوؤں کو موغادیشو سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس گروپ کی جانب سے اب بھی شہری اور فوجی اہداف پر پرتشدد حملے جاری ہیں۔

مثال کے طور پر اس مہینے کے اوائل میں موغادیشو کے شمال میں 220 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں الشباب کی جانب سے سڑک کنارے کیے جانے والے ایک بم دھماکے میں آٹھ شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

بہت سے دیگر حملوں میں دارالحکومت کے انتہائی اہم اہداف کو نشانہ بنانے کی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

گزشتہ مئی میں ایک فوجی اڈے پر حملے میں یوگانڈا کے امن دستے کے کم از کم 54 افراد مارے گئے تھے، جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بیدوا تقریباً دو ہفتوں سے گروپ کے محاصرے میں رہا تھا۔

پچھلے سال صومالی حکومت اور افریقی یونین کی افواج نے امریکی فضائیہ کی مدد سے گروپ کے خلاف ایک فوجی آپریشن شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے گروپ کے بیشتر جنگجوؤں کو ان کے زیر کنٹرول زمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود گروپ نے دوبارہ اپنے حملے تیز کر دیے ہیں، کیونکہ حکومتی فورسز آپریشن کے اگلے مرحلے کے لیے ابھی دوبارہ منظم ہو رہی ہیں۔

حکومتی فوجی آپریشن کا ایک مقصد گروپ کے مالیاتی نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے، جس میں گروپ کی جانب سے مقامی لوگوں پر جبری ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔

پیر کے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے الشباب نے کہا ہے کہ اس کے اس حملے میں 73 فوجی ہلاک اور 124 زخمی ہوئے۔ تاہم یہ اعداد و شمار فوج کی جانب سے اب تک کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے بہت زیادہ ہیں۔

صومالیہ کی 14ویں انفنٹری بریگیڈ کو ملک میں اس خونریز ترین جہادی حملے بعد تشکیل دیا گیا تھا، جس میں 14 اکتوبر 2017 کے روز ایک پرہجوم تجارتی مرکز میں بارود سے بھرے دو ٹرکوں کو دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس میں کم از کم 587 افراد ہلاک اور تقریباً 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں