اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالت فوج کو پابند کرے گی کہ وہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔
جمعرات کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور یہ عدالت بھی۔
انھوں نے کہا کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ بہت سنجیدہ ہے اور میں کبھی نہیں چاہوں گا اس ملک کی فوج اپنے شہریوں پر بندوق اٹھائے۔ انھوں نے کہا کہ فوج سرحدوں کی محافظ ہے اور جب میانوالی ایئربیس پر حملہ کیا گیا تو وہاں معراج طیارے کھڑے تھے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کا کسی جرم میں آرمڈ فورسز سے تعلق ہو تو ملٹری کورٹ ٹرائل کر سکتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون اور آئین فورسز میں واضح لکھا ہے یہ قانون ان افراد سے متعلق ہے جو آرمڈ فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ خصوصی دائرہ اختیار ملٹری کورٹس کواس لیے دیا گیا تا کہ کوئی کہہ بھی نہ سکے کی انسداد دہشتگری کے عدالت ٹرائل کیوں نہیں کر رہے؟
بینچ میں موجود جسٹس یٰحیٰ آفریدینے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو یہی سمجھا ہوں کہ آپ کہہ رہے ہیں ملٹری کورٹس عدالت کی کیٹیگری میں آتے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں آئین میں ترمیم اس لیے کرنا پڑی تب ملزمان کا آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اب اپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئینی ترمیم اس لیے ضروری نہیں کہ موجودہ واقعات میںملزمان اور آرمڈ فورسز کے درمیان تعلق موجود ہے
انھوں نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے تعلق پر ٹرائل ہو تو یہ بھی دیکھنا ہو گا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دشمن ممالک کے جاسوس اور دہشت گردوں کے لیے ملٹری کورٹ کا ہونا ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم عدالت کو یقین دہانی کروا چُکے ہیں کہ کن وجوہات پر مشتمل فیصلے دیں گے۔ انھوں نے اس تاثر کو ضائل کرنے کی کوشش کی آئین وقانون کو پس پشت ڈالنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اعتزاز احسن صاحب نے بتایا کہ پارلمینٹ بہت جلدی میں ہے جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اعتزاز احسن اور میرے والد ایم آر ڈی میں تھے، جیلوں میں بھی جاتے تھے مگر ان لوگوں نے فوجی تنصیبات پرحملے نہیں کئے۔ انھوں نے کہا کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایک بات یاد رکھیں وہ فوجی ہیں ان پر حملہ ہو تو ان کے پاس ہتھیار ہیں اور وہ ہتھیاروں سے گولی چلانا ہی جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا فوجی اہلکاروں پر کہیں حملہ ہو رہا ہو تو وہ پہلے ایس ایچ او کے پاس شکایت جمع کرائیں۔
بینچ میں موجود جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ فوج نے گولی چلائی کیوں نہیں یہ بتائیں جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے وہی صورتحال پیدا ہو کہ اگلی مرتبہ گولی بھی چلائیں اس لیے ٹرائل کر رہے ہیں، یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نہیں چاہتا کہ افواج پاکستان شہریوں پر بندوقیں تان لیں کیونکہ فوج کا کام شہریوں کی حفاظت کرنا ہے۔
بینچ کے کچھ ارکان کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔