اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان کے سینیٹ اجلاس میں وزارتِ خارجہ نے سزا یافتہ عالمی دہشت گرد خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے تحریری جواب جمع کرا دیا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے کے لیے 18 لاکھ 50 ہزار ڈالرز فیس ادا کی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ کون ہے
مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکی محکمۂ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔
تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
تاحال امریکی حکام یا پاکستانی دفتر خارجہ نے اس ملاقات سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے شدت پسندوں کی کوششیں، کب کیا ہوا؟
جنوری 2022 کو امریکی ریاست ٹیکساس کی ایک یہودی عبادت گاہ میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے خواہاں پاکستانی نژاد ملک فیصل اکرم کی ہلاکت ہوئی۔
امریکی حکام کے مطابق ٹیکساس کے شہر کولیویل میں 44 سالہ برطانوی نژاد پاکستانی شہری ملک فیصل اکرم نے یہودیوں کی عبادت گاہ میں چار افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ بعدازاں وہ پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا، جب کہ یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق ملک فیصل اکرم عافیہ صدیقی سے بات کرنا چاہتا تھا جو کہ ٹیکساس ہی کی فیڈرل جیل میں قید ہیں۔
عالمی جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے والے ادارے ایس آئی ٹی آئی انٹیلی جنس گروپ کے مطابق سوشل میڈیا بالخصوص ٹیلی گرام پر القاعدہ کے اہم مبلغین نے ٹیکساس واقعے کو سراہا ہے۔
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر قاتلانہ حملے سمیت سات الزامات کے تحت 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ میں لوگوں کو یرغمال بنا کر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل الجزائر، شام، پاکستان اور افغانستان میں فعال مختلف شدت پسند گروہ مغویوں کے عوض عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ یہ عناصر عافیہ کی قید کو غلط قرار دے کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر چکے ہیں اور اب تک درجنوں افراد ان واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
القاعدہ کی یمن شاخ نے 2014 میں ایک امریکی صحافی لیوک سومرز کو اغوا کر لیا تھا۔ اغوا کاروں نے نہ صرف عافیہ صدیقی بلکہ امریکی جیل میں قید شدت پسند رہنما شیخ عمر عبدالرحمان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
البتہ امریکی حکومت کے انکار پر مذکورہ صحافی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
شام میں امدادی کارروائیوں میں مصروف امریکی سماجی کارکن کائیلا میولر کو شدت پسند تنظیم داعش نے 2013 میں اغوا کر لیا تھا۔ ایک سال بعد عافیہ صدیقی کے بدلے ان کی رہائی کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ مطالبہ پورا نہ ہونے پر انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
داعش نے 2014 میں شام سے اغوا ہونے والے امریکی صحافی جیمز فولی کی رہائی کے بدلے 132 ملین ڈالر تاوان کے ساتھ ساتھ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امریکی انتظامیہ نے شدت پسندوں کے دونوں مطالبے مسترد کر دیے تھے جس پر داعش کے شدت پسندوں نے جیمز فولی کو قتل کر دیا تھا۔
اس سے قبل القاعدہ سے وابستہ الجزائر کے شدت پسندوں نے شمالی صحرا میں واقع آئل فیلڈ میں کام کرنے والے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔
یرغمالیوں نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ساتھ امریکی جیل میں قید مصری نژاد شیخ عمر عبد الرحمٰن کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
سن 2010 میں شیخ عمر عبدالرحمٰن کو نیویارک میں 1993 میں بم دھماکوں کے جرم میں سزا ہوئی تھی۔
پاکستان اور افغانستان میں بھی عافیہ کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی ملک میں دہشت گردی کے مختلف حملوں کو عافیہ صدیقی کو امریکی حکام کے حوالے کرنے اور ان کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کرنے سے جوڑتی رہی ہے۔
مارچ 2013 میں ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں واقع جوڈیشنل کمپلیکس پر خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ تنظیم کے عافیہ صدیقی بریگیڈ کی جانب سے کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدلیہ عافیہ صدیقی جیسے معصوم شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ہی جولائی 2011 میں بلوچستان کے علاقے لورالائی سے سوئٹزر لینڈ کے جوڑے اولیور ڈیوڈ اور مسز ٹنیلیا کو اغوا کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ویڈیوز میں انہیں طالبان کی حراست میں دکھایا گیا جو اپنی رہائی کے عوض عافیہ صدیقی کی رہائی کی درخواست کر رہے تھے۔ مارچ 2012 میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں ایک کارروائی میں سوئس جوڑے کو بازیاب کروا لیا تھا۔
اسی طرح افغان طالبان نے افغانستان کے صوبہ کنڑ سے لنڈا نینگرو نامی برطانوی سماجی کارکن کو اغوا کیا تھا اور ان کی رہائی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی متعدد کارروائیوں میں عافیہ صدیقی کا نام بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
امریکہ سے تعلیم یافتہ عافیہ صدیقی جن کا افغانستان پہنچنا آج تک معمہ ہے
امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔
ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔
ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ لائے جانے سے قبل انھیں افغانستان میں بگرام کی امریکی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مشاہد حسین سید، جو 2008 میں ہونے والی اس ملاقات میں شامل تھے، نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ ان کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور ان کو بے ہوشی کے انجکشن لگائے گئے۔
مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مطابق جب ان کو ہوش آیا تو وہ بگرام جیل میں قید تھیں۔
عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا کیوں ہوئی؟
ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2010 میں انھیں 86 برس قید کی سزا سنائی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا 20 سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا 20 سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا 20 سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلحہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید، امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اور عملدار پر حملے کی ہر ایک سزا آٹھ سال یعنی 24 سال بنتی ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات (گوانتانامو فائلز) کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔
یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے، جن میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔
تاہم ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی اور اس بات کا امکان ہے کہ ملزمان سے یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔
خالد شیخ محمد کو جنھیں انٹیلیجنس حلقوں میں ’کے ایس ایم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کو دوران حراست 183 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ دو ہزار دو اور تین کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔
دستاویزات کے مطابق اس سیل کے ارکان نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خالد شیخ محمد کے بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتے تھے۔
گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیف اللہ پراچہ کی فائل کے مطابق اس منصوبے میں ان کی ذمہ داری کرائے کے گھر حاصل کرنا اور انتظامی تعاون فراہم کرنا تھی۔
واضح رہے کہ سیف اللہ پراچہ کو حال ہی میں 20 سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ پر الزام تھا کہ اسی آپریشن کے سلسلے میں ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے وہ 2003 میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔
ماجد خان کو بھی رواں سال امریکہ نے رہا کر دیا ہے۔
تاہم خفیہ دستاویزات کے مطابق ماجد خان نے دوران حراست بیان دیا کہ انھوں نے اپنے امریکہ سفر کو ممکن بنانے کے لیے ڈاکٹر عافیہ کو رقم، تصاویر اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کے لیے فارم بھر کر دیا۔
ڈاکٹر عافیہ نے امریکہ جانے کے بعد وہاں ماجد خان کے نام سے ایک پوسٹ آفس بکس کھولا جس کے لیے انھوں نے اپنے ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس استعمال کیا۔
تاہم یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور ماجد خان کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے بعد گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔