اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کر دیا گیا۔ اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ہفتے کو توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کا حکم سنایا تھا۔
طبی معائنہ
پولیس ٹیم انہیں اڈیالہ روڈ سے پمز ہسپتال اسلام آباد لے کر پہنچی جہاں ڈاکٹرز کی ٹیم نے چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیکل چیک اپ کیا۔ میڈیکل کے بعد چئیرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل منتقل کیے جانا تھا تاہم سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر انہیں اٹک جیل منتقل کر کے ہائی سیکورٹی زون کے لاک اپ میں رکھا۔
سابق وزیر اعظم کو ان کی زمان پارک کی رہائش گاہ سے حراست میں لینے کے بعد پولیس بذریعہ موٹروے اسلام آباد لے کر آئی، پنجاب اور اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل منتقل کیا گیا، جیل کے باہر فورسز کی اضافی نفری تعینات رہی۔
قیدیوں کی درجہ بندی کیسے ہوتی ہے؟
پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کو تین کیٹگریز میں رکھا جاتا ہے۔
سی یا کامن کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل، ڈکیتی، چوری، لڑائی جھگڑے اور معمولی نوعیت کے مقدمات میں سزا یافتہ ہوں۔
بی یا بیٹر کیٹگری میں ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جو قتل اور لڑائی جھگڑے کے مقدمات میں تو ملوث ہوں تاہم اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔ گریجویشن پاس قیدی بھی بی کلاس لینے کا اہل ہوتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اے کلاس کیٹگری اعلیٰ سرکاری افسران کے علاوہ، سابق وفاقی وزرا اور ان قیدیوں کو دی جاتی ہے جو زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہوں۔
جیل کے قوانین کے مطابق عمران خان کو سابق وزیراعظم ہونے کی وجہ سے ’اے کلاس کیٹیگری‘ دی جا سکتی ہے لیکن اٹک کی جیل کے وارڈن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس جیل میں اے یا بی کلاس کیٹیگری کی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی 42 جیلوں میں سے صرف دو جیلیں ایسی ہیں جہاں پر قیدیوں کے لیے اے کلاس کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ان دونوں جیلوں میں بہاولپور جیل اور راولپنڈی کی اڈیالہ جیل شامل ہے۔
اے، بی اور سی کیٹیگری کے قیدیوں کو ملنے والی سہولیات
جیل مینوئل کے مطابق جن قیدیوں کو اے کلاس دی جاتی ہے انھیں رہائش کے لیے دو کمروں پر محیط ایک الگ سے بیرک دی جاتی ہے جس کے ایک کمرے کا سائز نو ضرب 12 فٹ یعنی لمبائی نو فٹ اور چوڑائی 12 فٹ ہوتا ہے۔
قیدی کے لیے بیڈ، ایئرکنڈیشن، فریج اور ٹی وی کے علاوہ الگ سے باورچی خانہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اے کلاس کے قیدی کو جیل کا کھانا کھانے کی بجائے اپنی پسند کا کھانا پکانے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اے کلاس میں رہنے والے قیدی کو دو مشقتی (کام کرنے والے) بھی دیے جاتے ہیں۔
جیل حکام کا کہنا ہے کہ اے کلاس کیٹگری میں جن مجرموں کو رکھا جاتا ہے اگر وہ گھر سے کھانا منگوانا چاہیں تو اس سے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوتی ہے، اس کے علاوہ ایسے مجرموں سے ان کے عزیز واقارب یا ان کے وکلا کی ملاقات کا ہفتے میں ایک دن مقرر ہوتا ہے تاہم اس کا تعین بھی حکومت کی منظوری سے کیا جاتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اگر قیدی چاہے تو دونوں مشقتی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
جیل قوانین کے مطابق جن قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے ان کو ایک الگ سے کمرہ اور ایک مشقتی دیا جاتا ہے تاہم اگر جیل سپرنٹنڈنٹ چاہیے تو مشقتیوں کی تعداد ایک سے بڑھا کر دو بھی کر سکتا ہے۔
بی کلاس کے حصول کے لیے کچھ شرائط متعین ہیں جن کی بنیاد پر محکمۂ داخلہ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
سی کیٹیگری جیل میں عام قیدیوں کے لیے ہوتی ہے جنھیں نہ تو گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سہولیات میسر ہوتی ہیں جن کا تعلق اس کی تعلیم یا عہدے کی مناسبت سے ہو۔
پنجاب کی ایک جیل میں اعلیٰ عہدے پر تعینات افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ عثمان بزدار کی حکومت نے سی کلاس کے قیدیوں کو گدا، کولر اور 10 چینل والی کیبل لگوانے کی سہولت دی ہے جس کے لیے سپرٹنڈنٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی سیاسی قیدی کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر سی کلاس میں بھی عام قیدیوں کے ساتھ نہیں بلکہ الگ کوٹھری میں رکھا جاتا ہے۔
جیل حکام کے مطابق اے اور بی کلاس کے قیدیوں کے لیے بطور خدمت گزار جن افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ معمولی جرائم میں ملوث قیدی سی کیٹیگری کے ہی ہوتے ہیں۔
اٹک جیل کہاں واقع ہے اور اس شہر کی کیا تاریخی اہمیت ہے؟
اٹک پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آخری شمالی شہر ہے جو سنہ 1904 میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں کیمبل پور کے نام سے آباد کیا گیا تھا۔
دریائے سندھ کے بائیں کنارے جہاں 120 سال پرانا شہر اٹک موجود ہے وہاں تھوڑے ہی فاصلے پر ‘اٹک خورد’ یعنی چھوٹا اٹک کے نام سے ایک گاؤں اس کہیں پہلے وجود رکھتا ہے۔
16ویں صدی میں جب مغل بادشاہ اکبرِ اعظم نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر جب قلعہ تعمیر کرایا تو اس کا نام بھی اٹک قلعہ رکھا تھا۔ اس تاریخی قلعے کا ایک حصہ آج بھی پاکستانی فوج کے ‘سپیشل سروسز گروپ’ یعنی کمانڈوز کے زیرِ انتظام ہے۔
اسی قلعے میں سابق فوجی صدر ضیاالحق کے خلاف مبینہ طور پر بغاوت کے مقدمے سمیت بینظیر بھٹو کے خلاف مبینہ سازش کرنے والوں کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔
1999 میں ملک میں فوجی بغاوت کے بعد سابق وزیرِاعظم نواز شریف بھی اس قلعہ میں قید رہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی اسی تاریخی قلعے میں ہوتی رہی ہے اور وہ ایک طویل عرصے تک یہیں قید رہے۔
اٹک کی ضلعی جیل شہر کے قیام کے ایک برس بعد 1905 میں قائم کی گئی اور پنجاب کے محکمۂ جیل خانہ جات کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں 539 قیدی رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت وہاں اس سے کہیں زیادہ یعنی 804 افراد قید ہیں۔
اس جیل میں ماضی میں بھی سیاست دانوں کو قید کیا جاتا رہا ہے۔ رواں برس فروری میں تحریکِ انصاف نے جب جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تھا تو پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو ایک مہینے کے لیے اٹک جیل بھیجا گیا تھا۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور ایفیڈرین کیس میں عمر قید کی سزا پانے والے حنیف عباسی بھی کچھ عرصہ اس جیل میں قید رہ چکے ہیں۔ انھیں ابتدائی طور پر اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا تاہم جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں ن لیگ کے قائد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے ساتھ ملاقات کی خبریں سامنے آنے کے بعد انھیں اٹک جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں ہفتے کو پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
پی ٹی آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین کی تلقین و ہدایات کی روشنی میں مکمل طور پر پرامن اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرے گی۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ مل کر مکمل نظم و ضبط اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ہفتے کو توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیرِ اعظم کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے پارٹی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر پرامن احتجاج کی کال دی ہے۔ صوبۂ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر کئی اضلاع میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں ہفتے کو پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
پی ٹی آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین کی تلقین و ہدایات کی روشنی میں مکمل طور پر پرامن اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرے گی۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ مل کر مکمل نظم و ضبط اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت نے ہفتے کو توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیرِ اعظم کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کیا گیا ہے۔
امکان ظاہر کیا جار ہا ہے کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں رکھا جائے گا جہاں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں پی ٹی آئی کے 20 کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گرفتار افراد میں پی ٹی آئی کے سابق رکنِ صوبائی اسمبلی کے دو صاحبزادے عارف اور طارق بھی شامل ہیں۔
پولیس نے گرفتار کارکنوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو “ناقص اور متعصبانہ” قرار دیا ہے اور سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف فیصلے کی اپیل پر عدالتی چھٹیوں اور دیگر معمولات کا لحاظ کیے بغیر ترجیحی بنیادوں پر سماعت کرے اور اپیل کو فیصلے کے لیے مقرر کیا جائے۔
خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں دفعہ 144 نافذ
وائس آف امریکا کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی جب کہ جلسے جلوسوں اور دیگر سیاسی اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
حکام نے پشاور سمیت تمام اضلاع میں سیکیورٹی سخت کرنے کے احکامات بھی صادر کیے ہیں جب کہ نوشہرہ، ڈیرہ اسماعیل خان اور خیبر سمیت مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں نے سیاسی اجتماعات اور جلسوں پر دفعہ 144 کے تحت پابندیاں عائد کرنے کے اعلامیے جاری کر دیے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں میں عمران خان کو سزا سنانے کے فوراً بعد پی ٹی آئی سے منسلک بعض افراد نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تاہم دو مظاہرین کی گرفتاری کے بعد دیگر افراد پر امن طور پر منتشر ہوگئے ۔
پشاور میں پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداروں نے کارکنوں کو کسی بھی وقت مظاہرہ کرنے کے لیے تیار رہنےکی ہدایت کی ہے ۔صوبے کے دیگر اضلاع میں کہیں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔