تیونس سٹی (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) تیونس کے ایک جزیرے کے پاس تارکین وطن سے بھری ایک کشتی ڈوبنے سے چار افراد ہلاک اور تقریباً 51 لاپتہ ہیں۔ اس برس اب تک تیونس کے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی 900 سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔
تیونس میں ایک عدالتی اہلکار نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ملک کے جزیرے کرکنہ کے قریب تارکین وطن کا ایک جہاز ڈوبنے سے کم از کم چار تارکین وطن ہلاک اور 51 لاپتہ ہو گئے۔ اہلکار کے مطابق اس کشتی میں سوار تمام تارکین وطن کا تعلق افریقہ کے سب صحارا سے تھا۔
رواں برس شمالی افریقی ملک تیونس کو نقل مکانی کی ریکارڈ لہر کا سامنا رہا ہے، جہاں اب تک سب صحارا افریقہ سے اطالوی ساحلوں کی طرف جانے والے تارکین وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے جیسے درجنوں تباہ کن واقعات ہو چکے ہیں۔
رواں برس اب تک 900 سے زائد ہلاک
ایک ہفتے قبل ہی تیونس کے وزیر داخلہ کامل فقی نے بتایا تھا کہ رواں برس جولائی کے اواخر تک تیونس کے ساحل پر 900 سے زیادہ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس شمال افریقی ملک کو تارکین وطن کی بڑی تعداد کی آمد کا سامنا رہا ہے، جو غربت سے بچنے کے لیے یہاں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تیونس کے نیشنل گارڈ کے ترجمان حسیم الدین جبالی کا کہنا تھا کہ اس برس اب تک متعدد کارروائیوں میں 34 ہزار سے زائد افراد کو بچایا بھی گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی ایسی بیشتر کشتیاں تیونس کے جنوبی شہر اسفیکس سے روانہ ہوتی ہیں اور اس کا مقصد کسی بھی طرح یورپ تک پہنچنا ہوتا ہے۔
اس سے قبل اطالوی حکومت نے کہا تھا کہ اس برس 80,000 سے زیادہ ایسے پناہ کے متلاشی تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کر کے اس کے ساحل پر پہنچے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق تیونس اور لیبیا سے ہے۔
تیونس میں صورتحال کیا ہے؟
تقریبا ًسوا کروڑ کی آبادی والے ملک تیونس میں تارکین وطن کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نسلی کشیدگی کے ساتھ ہی کئی بار تشدد بھی بھڑکا ہے، کیونکہ اب یہ مہاجرین کے راستوں کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔
یہ شمال افریقی ملک پہلے سے ہی ایک گہرے معاشی بحران سے نبرد آزما ہے، جہاں مہنگائی اور ریکارڈ بے روزگاری تیونس کے باشندوں کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔
تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بہتر زندگی کی امید میں بحیرہ روم کے ذریعے اکثر خطرناک کشتیوں میں جان لیوا سمندری سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے ایسے تارکین وطن کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو ملک کے الگ تھلگ علاقوں میں منتقل ہونے کے بعد سے تیونس میں پھنس گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ”پھنسے ہوئے لوگوں میں خواتین (بشمول ان کے جو حاملہ ہیں) اور بچے بھی شامل ہیں۔”
آئی او ایم کے مطابق تارکین وطن کے لیے وسطی بحیرہ روم دنیا کا سب سے مہلک راستہ بن چکا ہے، جو سن 2014 سے اب تک 20,000 سے بھی زیادہ جانیں لے چکا ہے۔