نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) بھارتی ریاست ہریانہ کے متعدد علاقوں میں پرتشدد واقعات اور سینکڑوں عمارتوں پر بلڈوز چلانے کے پس منظر میں ہریانہ اور پنجاب ہائی کورٹ نے پوچھا ہے کہ کیا ایک فرقے کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے حکومت سے 11 اگست تک اس کا جواب طلب کیا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ہریانہ کے نوح میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں پر بلڈوز چلانے کا سلسلہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد گوکہ تھم گیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے سینکڑوں دکانوں اور مکانات منہدم کردیے گئے۔ ہائی کورٹ نے ان واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے سخت سوال کیا اور پوچھا کہ کسی قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ان عمارتوں کو آخر کیوں توڑا گیا؟
Nuh, Gurugram demolitions: Punjab & Haryana High Court flags issue of whether ethnic cleansing is being conducted by State#NuhViolence #Haryana
Read full story: https://t.co/0E7gJUz86o pic.twitter.com/nAE8Yydaoi
— Bar & Bench (@barandbench) August 8, 2023
عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ آخر صرف ایک مخصوص فرقے کے مکانات اور عمارتوں کو ہی کیوں منہدم کیا جا رہا ہے اور ایسا کرکے کیا ریاستی حکومت ہی ایک فرقے کی نسلی تطہیر کرنے کا کام کر رہی ہے؟ عدالت نے اس حوالے سے میڈیا رپورٹوں کا بھی ذکر کیا جن میں ہریانہ کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بلڈوز “علاج” کا حصہ ہے۔
عدالت نے ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت سے نوح اور گروگرام میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران منہدم کردی گئی عمارتوں کی تفصیلات 11 اگست تک طلب کی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اب تک 750 سے زائد عمارتیں منہدم کی جاچکی ہیں۔
مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ کی اپیل
ایک طرف جہاں مسلمانوں کی دکانیں اور مکانات منہدم کیے جا رہے ہیں وہیں دوسری طرف ہندو شدت پسند تنظیموں نے ایک مہا پنچایت منعقد کرکے مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ مہاپنچائت حکومت کی اجازت کے بغیر اور گروگرام کے اسی سیکٹر 57 میں منعقد کی گئی جہاں ہندوؤں کے ہجوم نے ایک مسجد کو نذرآتش اور اس کے امام کا قتل کردیا تھا۔ مہا پنچایت نے دھمکی دی ہے کہ مسجد پر حملے کے الزام میں گرفتار لوگوں کو سات دنوں کے اندر رہا اور ان کا کیس ختم نہیں کیا گیا تو سخت مظاہرے کرے گی۔
ہندو شدت پسند تنظیم بجرنگ دل کے ایک رکن کلبھوشن بھاردواج کا کہنا تھا،” گروگرام میں ہزاروں مسلمان بڑھئی، نائی، سبزی فروش، میکنیک اور ڈرائیور کام کرتے ہیں اور ہم ان کی ہمیشہ حمایت بھی کرتے رہے ہیں لیکن اب انہیں کسی بھی جگہ کسی طرح کی مدد نہیں ملے گی۔۔۔ مسلمانوں کو اب شہر میں رہنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہم شہر کے لوگوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی مسلمان کو اپنا مکان کرایے پر نہ دیں۔”
ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد گروگرام میں مسلم دکانداروں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ سلامتی کے خدشات کے پیش نظر بعض مسلم ملازمین گروگرام جانے سے گریز کررہے ہیں۔ حالانکہ پولیس نے گڑبڑی پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بائیکاٹ کے اعلان کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
متعدد سیاسی جماعتوں اور مسلم تنظیموں نے ہندو شدت پسندوں کے اس اپیل کی مذمت کی ہے۔ اس دوران کانگریس کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے اس معاملے میں عدالت سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے عرضی پیش کرتے ہوئے کپل سبل کا کہنا تھا، “گروگرام میں جو کچھ پیش آیا وہ بہت سنگین معاملہ ہے… وہاں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر آپ اپنے دکانوں میں ان (مسلمانوں) کو ملازمت دیتے ہیں تو آپ غدار ہیں۔ اس سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔”
عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈر نے مسلمانو ں کا بائیکاٹ کی اپیل پولیس کی موجودگی میں کی تھی۔