تہران (ڈیلی اردو) ایران میں جرنلسٹس سنڈیکیٹ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری احتجاج میں ایرانی حکام نے 100 سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تہران میں جرنلسٹس سنڈیکیٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین اکبر منتجی نے لکھا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران 100سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا گیا جسے انہوں نے ایران میں صحافت کے حوالے سے سیاہ دور قرار دیا۔
اصلاح پسند “سازندکی” اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں منتجی نے کہا کہ گذشتہ سال کے دوران 100 سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔”
ان کا کہنا تھا کہ گرفتاریوں سے معلومات کی ترسیل پر کوئی اثر نہیں پڑا کیونکہ پانی کی طرح اپنا راستہ تلاش کر لیتا ہے، منتجبی نے لکھا کہ “صحافت کا سیاہ دور ختم نہیں ہوا اور ایجنسیوں کا اتحاد سب سے زیادہ دبا ڈالتا ہے, صحافیوں کو گرفتار کرنے، ملازمت سے نکالنے اور ملک بدر کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ” صحافی دشمن نہیں ہی، جو لوگ آزادی کے مطالبے کی آواز اٹھاتے ہیں وہ دشمن نہیں ہیں اور وہ دشمن ممالک کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کے دکھ درد کا حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ مہسا امینی کی موت کے بعد پورے ایران میں مشتعل عوامی مظاہروں نے ہلچل مچا دی، مہسا کو ایرنی مذہبی پولیس نے مذہبی لباس کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا تھا۔
فرانسیسی پریس ایجنسی نے اصلاح پسند اخبار شرق کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ “گرفتار صحافیوں کی حمایت کرنے والی کمیٹی نے گزشتہ 10 ماہ کے دوران ایران کے مختلف شہروں میں 90 سے زیادہ صحافیوں کی گرفتاری یا طلبی کے واقعات رپورٹ کئے ہیں۔
یہ کمیٹی ستمبر میں ان صحافیوں کی صورت حال پر نظر رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی جنہیں احتجاج کی وجہ سے حکام کی جانب سے گرفتار یا ہراساں کیا جاتا ہے۔
کمیٹی نے تصدیق کی کہ “گذشتہ مہینوں کے دوران زیادہ تر صحافیوں کو مشروط طور پر رہا کیا گیا اور دیگر کو عام معافی کا فائدہ ہوا۔”