کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’جہاں تک مجھے معلوم ہے رؤف ایک آزاد منش انسان تھا جسے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا، خاص طور پر وہ تاریخی کتابیں اور ناول بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ گریجوئیشن کے بعد وہ وکیل بننا چاہتا تھا کیونکہ اس کی رائے تھی کہ وکالت کے شعبے میں ہر وقت انسان پڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔ علاقے کے کسی بھی شخص سے پوچھ لیں وہ گواہی دے گا کہ رؤف ایک ذہین اور محنتی طالبعلم تھا۔ نہ صرف گھر والوں کو بلکہ علاقے کے لوگوں کی بھی ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔‘
ہمارے ایک سوال کے جواب میں خالد (فرضی نام) نے اپنے دوست رؤف کی شخصیت کے بارے میں بتانے کی ابتدا کچھ یوں کی۔ بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے نوجوان رؤف کو تربت میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے اُس وقت ہلاک کر دیا جب وہ ایک مقامی مدرسے کے مذہبی علما کو یہ وضاحت دینے جا رہے تھے کہ اُن پر لگنے والا توہین مذہب کا الزام جھوٹا ہے۔
18 سالہ رؤف 12ویں کلاس کا امتحان دے کر نتائج کا انتظار کر رہے تھے، اور ان کے دوست کے مطابق چونکہ وہ ایک ذہین طالبعلم تھے اس لیے انھوں نے چھٹیوں میں ایک مقامی لینگویج سینٹر میں بچوں کو انگلش کی کلاس پڑھانی شروع کر دی تھی۔ اُن پر مبینہ توہین مذہب کا الزام لینگویج سینٹر کے بچوں نے ہی عائد کیا تھا۔
خالد کہتے ہیں کہ ’آپ رؤف کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ انٹرمیڈیٹ کا طالب علم ہوتے ہوئے ہی اس نے بچوں کو انگلش پڑھانا شروع کر دی تھی۔‘
رؤف کے ایک رشتہ دار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رؤف ایسا نہیں تھا جیسا الزام اس پر لگایا گیا۔ ہمیں تو سوشل میڈیا پر ان کے لگنے والے الزام اور قتل کا پتا چلا۔‘
پولیس کے مطابق نامعلوم افراد نے گذشتہ سنیچر کو رؤف پر حملہ کیا تھا۔ ان کے قتل کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے اور تاحال اس سلسلے میں کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے۔
ضلع کیچ کے ایس ایس پی محمد بلوچ کا کہنا ہے کہ اس واقعے پر مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے لیکن اگر الزام لگنے کے فوراً بعد اس معاملے کو پولیس کے حوالے کر دیا جاتا تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
توہین مذہب کا الزام
رؤف برکت پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لینگویج سینٹر میں پڑھنے والے طلبا میں سے بعض نے لگایا۔ اس سینٹر کے سربراہ سدھیر بلوچ کے مطابق جب شکایت سامنے آئی تو انھوں نے رؤف کو بلایا اور اس کی بھی بات سُنی۔
’رؤف ایک بات کر رہا تھا جبکہ طالب علم دوسری بات کر رہے تھے۔ جس پر میں نے اپنی دانست کے مطابق یہ بہتر سمجھا کہ دینی علما سے رابطہ کیا جائے۔ چونکہ یہ ایک حساس مسئلہ تھا اور میں اس پر خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے علما سے فیصلہ کروانے کا سوچا گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے علاقے کے مفتی صاحبان سے بات کی تو وہ لینگویج سینٹر آئے اور اس حوالے سے ٹیچر اور طلبا دونوں سے بات کی۔
سدھیر بلوچ کے مطابق سینٹر میں ابتدائی بات چیت کے بعد علما نے کہا کہ ’آپ سب لوگ مدرسے آ جائیں تو دوسرے علما کو بلا کر اس کا فیصلہ کیا جائے گا کہ توہین رسالت ہوئی ہے یا نہیں۔‘
سدھیر کے مطابق اس کے بعد طے پایا کہ اگلے روز مدرسے جایا جائے گا۔
رؤف کا قتل
سدھیر بلوچ ان افراد میں شامل تھے جو رؤف کے ساتھ مدرسے جا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کے ساتھ رؤف اور اس کے رشتہ دار بھی تھے جو مدرسے جا رہے تھے۔
’ہم موٹر سائیکلوں پر جا رہے تھے جب ہم نے راستے میں نقاب پوش افراد کو دیکھا۔ ہم مدرسے کے قریب تھے جب اِن نقاب پوش افراد نے فائرنگ شروع کر دی جس کے باعث ہم سب اِدھر اُدھر بھاگے، اس دوران انھوں نے رؤف کو نشانہ بنا کر گولی مار دی جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں سدھیر نے بتایا کہ وہ صرف یہ چاہتے تھے اس الزام کے نتیجے میں بدامنی کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے اور مسئلے کا حل نکل آئے۔ ’ہم بس اسی ارادے اور نیت کے ساتھ علما کے پاس مدرسے جا رہے تھے۔‘
’رؤف کے قتل سے ہم سب ٹوٹ گئے ہیں‘
بی بی سی کے رابطہ کرنے پر رؤف کے بیشتر رشتہ داروں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا۔ تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کر ایک رشتہ دار نے بتایا کہ ’رؤف تعلیم حاصل کرنے کے لیے تربت گئے تھے۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ واقعہ کیسے اور کن حالات میں پیش آیا۔
خالد اس واقعے کے بعد رؤف سے رابطے میں تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’رؤف توہین مذہب کا مجرم نہیں تھا۔ اس پرجھوٹا الزام عائد کیا گیا جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں۔‘ رؤف کو جاننے والے جن دوستوں اور رشتہ داروں سے ہماری گفتگو ہوئی وہ سب اس بات پر متفق تھے وہ چھوٹی عمر سے ہی کتابیں کافی پڑھتے تھے۔
لینگویج سینٹر کے سربراہ سدھیربلوچ نے بھی اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ رؤف ایک ذہین شخص تھا جسے کتب بینی کا بہت زیادہ شوق تھا۔
خالد بتاتے ہیں کہ چونکہ رؤف کو مالی مشکلات کا سامنا تھا اس لیے اس نے اپنے اور اپنے چھوٹے بھائی کے تعلیمی اخراجات کو پورے کرنے کے لیے لینگویج سینٹر میں پڑھانا شروع کیا تھا۔
خالد نے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ آپ رؤف کے گاؤں جائیں اور یہ دیکھیں کہ لوگ ان کے قتل کے واقعے سے کس قدر ٹوٹ گئے ہیں۔‘
رؤف کو مدرسے کیوں بلایا گیا؟
ضلع کیچ کے مفتی شاہ میر نے دعویٰ کیا ہے کہ ’لینگویج سینٹر کے پرنسپل کے رابطہ کرنے پر پہلے ہماری ٹیچر (رؤف) سے بات ہوئی۔ اس نے واضح طور پر انکار کیا کہ اس نے طلبا کے سامنے توہین رسالت پر مبنی کوئی بات کی ہے، لیکن طلبا اس بات پر قائم تھے کہ ٹیچر نے ایسی بات کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ طلبا کا الزام سنگین تھا اور یہ ایک دینی مسئلہ تھا اس لیے ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ علما کی مجلس بلا کر اس معاملے کاحل نکالا جائے تاکہ اس سے بدامنی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئے کیونکہ ہمارے علاقے کے حالات پہلے سے ہی خراب ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نہیں چاہتے تھے کہ اس حوالے سے لوگ کھڑے ہو کر علاقے میں احتجاج کریں اور ویسی صورتحال پیش آئے جیسی ملک کے دیگر علاقوں میں اکثر اس نوعیت کے معاملات میں پیش آتی ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے پہلے بھِی اس طرح کے دو معاملات کا خوش اسلوبی سے حل نکالا تھا مگر اس معاملے میں ٹیچر کو علما کی مجلس میں پہنچنے سے پہلے قتل کر دیا گیا۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ اسلام میں کسی فرد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے طور پر کسی کو سزا دے بلکہ شرعی اور ملکی قوانین کے حساب سے یہ کام عدالتوں کا ہے۔
’تحقیقات جاری ہیں، تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے‘
کیچ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ تاحال اس قتل کے حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
ایس ایس پی کیچ محمد بلوچ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں اوراس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا مقدمہ درج کرانے کے لیے اہلخانہ میں سے کوئی بھی نہیں آیا جس پر پولیس کو اپنی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کرنا پڑا۔
انھوں نے بتایا کہ رؤف کو علما کی طرف لے جایا جا رہا تھا جب نامعلوم مسلح افراد نے اُن پر حملہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے علمائے کرام سے پوچھ گچھ کی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اُن کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کروانا چاہتے تھے۔
محمد بلوچ کے مطابق ’ہم اُن تمام افراد کو تفتیش کے دائرے میں لائیں گے، جن کا اس واقعے سے کوئی تعلق بنتا ہے۔‘
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’جب رؤف پر توہین مذہب کا الزام لگا تو اس حوالے سے کسی نے پولیس کو اطلاع نہیں دی بلکہ اس معاملے کو اپنے طور پر نمٹانے کی کوشش کی جس کے باعث یہ واقعہ پیش آیا۔ اگر پہلے دن ہی پولیس کو اطلاع دی جاتی تو ہم اس کو قانون کے مطابق اس سے ڈیل کرتے۔‘
رؤف کےقتل کے واقعے کے خلاف احتجاج بھی دیکھنے میں آیا۔ گذشتہ بدھ کے روز تربت شہر میں سول سوسائٹی تربت کے زیرِاہتمام اس واقعے کے خلاف ایک خاموش احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں خواتین بھی شریک تھیں۔ ریلی کے شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر رؤف برکت کے قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبات درج تھے۔