پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی) فرانس میں حکام نے تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے اور اس میں چھ افغان شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
پیرس میں استغاثہ نے ان چھ افغان تارکین وطن کی موت کی تحقیقات شروع کی ہیں جن کی کشتی فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سمندر کو عبور کرنے کی کوشش میں ڈوب گئی تھی،کشتی میں سوار 59 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
چھ افغان باشندے اس وقت ہلاک ہوئے جب ہفتے کی صبح انگلینڈ جانے والی کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔
فرانس کی کوسٹل اتھارٹی پریمار نے کہا ہے کہ کشتی میں سوار زیادہ تر ا فراد افغان شہری تھے جب کہ کچھ سوڈانی اور چند بچے بھی اس میں سوار تھے۔
برطانوی اور فرانسیسی کوسٹ گارڈز نے 59 افراد کو بچا لیا ہے البتہ یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید اموات ہو سکتی ہیں تاہم اس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔
#BREAKING: 6 people have died after a boat carrying migrants heading to Britain sank in the English Channel, French maritime officials said, as a search continued to find those still missing.
A spokesperson from the French coastal authority Premar said on Saturday that between… pic.twitter.com/kEnJkt1NG5
— Diplomat Times (@diplomattimes) August 12, 2023
سمندر میں ڈوبنے والے افراد کی تلاش ہفتے کی شب کو ختم کر دی گئی تھی۔ لیکن اتوار کو چینل سے گزرنے والے جہازوں کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی تھی۔
پریمار نے اتوار کو زور دیا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ہم واقعی کسی کی تلاش کر رہے ہیں۔
اتوار کو تقریبأ 200 افراد مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بندرگاہ پر جمع ہوئے۔
انہوں نے ایک بڑے بینر کے ساتھ مارچ کی جس پر ان 376 تارکین وطن کے نام درج تھے جن کے بارے میں کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ 1999 سے خطرناک چینل کراس کرنے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
“یہ لوگ عام بے حسی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔”
یہ کہنا ہے ’ڈیسز‘ نامی ادارے کا، جو کراسنگ کے متاثرین کی تدفین یا وطن واپسی کا انتظام کر تا ہے۔
اس نےایک بیان میں تارکین وطن کو مسلسل ہراساں کرنے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے پر حکومت کے اقدامات کی مذمت کی ہے۔
اس نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آیا ا انگلینڈ اور فرانس کے حکام ہفتے کو کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں کو ان کے اہلِ خانہ سے دوبارہ ملنے کی اجازت دیں گے۔
خطرات کے باوجود پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں اضافہ
فرانس کے جونیئر وزیر برائے سمندر برویل نے اتوار کو اسمگلروں کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار اسمگلنگ نیٹ ورکس کو قرار دیا اور ان کے خلاف جدوجہد کا عزم ظاہر کیا۔
دوسری جانب خطرات کے باوجود کئی تارکینِ وطن فرانس کے شمالی ساحل کے ساتھ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور انگلش چینل کو عبور کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق لگ بھگ ایک ہزار تارکینِ وطن شمالی فرانس کے ساحل پر موجود ہیں جو چینل کو عبور کرنے کے موقع کا انتظار کر رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار میں جمعے کو انکشاف کیا گیا کہ برطانیہ نے 2018 میں عوامی طور پر تارکین کی آمد کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا جس کے بعد سے ایک لاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن فرانس سے جنوب مشرقی انگلینڈ تک چھوٹی کشتیوں پر انگلش چینل عبور کر چکے ہیں۔
برطانیہ نے مارچ میں فرانس کو سالانہ ایک خطیر رقم دینے پر رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد فرانسیسی حکام نے سمندر میں گشت اور تارکین کی چھوٹی کشتیوں میں چینل عبور کرنے کی کوششوں کی روک تھام کےاقدامات میں اضافہ کیا۔
اب بھی سمندر کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
اس کی وجہ سے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کی حکومت پر دباؤ برقرار جس نے آئندہ برس انتخابات سے قبل کشتیوں کو روکنا حکومت اہم ترجیح بنایا ہوا ہے۔
گزشتہ سال لگ بھگ 45 ہزار تارکینِ وطن کی ریکارڈ تعداد میں چینل عبور کیا تھا۔