کراچی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سینئیر صحافی جان محمد مہر کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ جان محمد مہر پاکستانی سندھی نیوز چینل کے ٹی این میں بطور بیورو چیف اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
صحافی جان محمد مہر کے قتل کا یہ واقعہ تیرہ اگست کی رات تقریبا نو بجے اس وقت پیش آیا جب وہ کے ٹی این نیوز سکھر بیورو سے اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔ سکھر کے علاقے کوئنس روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے ان فائرنگ کر دی۔ بتایا گیا ہے کہ اندھا دھند برسائی گئیں یہ گولیاں ان کی گردن، سر اور پیٹ میں لگیں جبکہ گاڑی کے دونوں اطراف کے شیشے چکنا چور ہو گئے۔ انہیں شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، مگر ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ جان کی بازی ہار گئے۔ جبکہ دوسرے صحافی اصغر لنڈ کو آٹھ اگست کی رات کو ان کے اپنے گھر واقع ( احمد پور ) کے باہر پستول سے فائر کرکے قتل کیا گیا تھا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے ان دونون واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پی ایف یو جے اور سکھر یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے اسی تناظر میں دس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے اور سکھر پریس کلب پر سیاہ پرچم لگایا گیا ہے۔ پی ایف یو جے کے سیکر یٹری فنانس لالہ اسد پٹھان کا کہنا تھا اگر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے اندر قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو پورے پاکستان میں احتجاج کیا جائے گا۔
سکھر یونین آف جرنلسٹ کے صدر اور دیگر عہدیداران کا کہنا تھاحکومت صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے اور یہ قتل ایسے وقت میں کیا گیا جب سارا ملک جشن آزادی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔
ایس ایس پی پولیس سنگھار ملک کا کہنا تھا کہ دو روز قبل ان کی صحافی جان محمد مہر سے بات چیت ہوئی تھی جس میں انہوں نے کسی بھی قسم کے تھریٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قاتلوں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، ”صحافی جان محمد مہر سکھر کی ایک توانا آواز تھے، ان کی غیرجانب دارانہ اور متوازن رائے ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں میں مقبول تھی۔‘‘
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صحافی جان محمد مہر کے قتل سے متعلق اہم شواہد ملے ہیں حکومت جلد قاتلوں کو گرفتار کر لے گی۔
آئی ایف جے کی رپورٹ کے مطابق سن 2022 میں دوران ملازمت پانچ صحافیوں حسنین شاہ، ضیاء الرحمن فاروقی، افتخار احمد، محمد یونس، صدف نعیم کو قتل کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ارشد شریف، اجے لعلوانی، اصغر کھنڈ اور جان محمد مہر جیسے نامور صحافی بھی ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیے گئے۔ یعنی سن دو ہزار بائیس سے اگست دو ہزار تئیس تک پاکستان میں کل نو صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔
یکم مئی کی ڈیلی اردو کی رپورٹ کے مطابق ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے‘ کے موقع پر جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ مہینوں میں ملک کا میڈیا ماحول خطرناک اور زیادہ پُرتشدد ہو گیا ہے، مئی 2022 سے مارچ 2023 کے درمیان حملوں کی تعداد 63 فیصد بڑھ کر 140 ہو گئی جو 22-2021 میں 86 تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز اور آرگنائزیشنز کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے کم از کم 140 کیسز رپورٹ ہوئے، جو سالانہ بنیادوں پر 60 فیصد اضافہ ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے بتایا تھا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ پریشان کن ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔