برسلز + برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) یورپی یونین کی ریاستیں کئی سالوں سے اس بلاک کی بیرونی سرحدوں کو سیل کرنے، ملک بدری کو بڑھانے اور تارکین وطن کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ اقدامات مؤثر ثابت ہوئے ہیں؟
یورپی بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی فرونٹکس یورپی یونین پہنچنے والے تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں ایک اور اضافے کی توقع کر رہی ہے۔ 2022ء میں فرونٹکس نے تقریباً 330,000 غیر قانونی سرحدی کراسنگز ریکارڈ کیں، جو 2016ء کے بعد سے سب سے بڑی تعداد ہے۔ جبکہ 2016 ء میں یورپی بلاک نے یورپ کا رُخ کرنے والوں کی ریکارڈ تعداد دیکھی تھی۔ 2023ء کے لیے، ایجنسی نے پیش گوئی کی ہے کہ غیر قانونی سرحدی گزرگاہوں میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ دیگر عوامل کے علاوہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وسطی بحیرہ روم کے راستے سے اٹلی آنے والوں کی آمد موسم بہار میں تین گنا بڑھ جاتی ہے۔
یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک اور سابق ممبران جیسے کہ برطانیہ اس لیے سخت قوانین، ضوابط اور سیاسی پناہ کے طریقہ کار کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پناہ کے متلاشیوں کو اپنے ممالک میں داخل ہونے سے روک سکیں۔
چند اہم کوششیں
ڈنمارک نے روانڈا میں پناہ گزین مراکز کھولنے کی کوشش کی تاہم اس میں وہ ناکام رہا۔ تب بھی حکومت نے حالیہ برسوں میں سیاسی پناہ کے طریقہ کار کو مزید محدود کر دیا ہے۔ ڈنمارک برسوں سے جرمنی کے ساتھ سرحدی چیکنگ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس شمالی افریقی ملک میں ہر ماہ صرف 180 افراد سیاسی پناہ کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ یہ تعداد آسٹریا جیسے ملک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر، آسٹریا میں 2022ء کے ہر ماہ 4,000 سے 11,000 کے درمیان درخواستیں درج کی گئیں تھیں۔
تارکین وطن پہلےیورپی یونین کے ممالک جیسے اٹلی، یونان، مالٹا، قبرص، کروشیا اور حال ہی میں پولینڈ میں اپنے جغرافیائی محل وقوع اختیار کرتے ہیں۔ یہ ریاستیں اب کوشش کر رہی ہیں کہ تارکین وطن کے داخلے کو ہر ممکن حد تک مشکل بنایا جائے۔ یورپی یونین کی کچھ بیرونی سرحدیں، جیسے کہ دریائے ایوروس کے ساتھ یونانی ترکی سرحد، کو مؤثر طریقے سے بند کر دیا گیا ہے۔ اب یورپی یونین تک پہنچنے کے لیے صرف ایک خطرناک سمندری راستہ رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ پناہ کی تلاش میں یورپ آنے والے اصلی یا جعلی ویزا لے کر ہوائی جہاز کے ذریعے بلاک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جرمنی کے لیے مسائل
جرمن شہر اور میونسپلٹیوں کو نئے آنے والوں کو رہائش اور انضمام کے مواقع فراہم کرنے جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ یورپی یونین میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں سے تقریباً ایک چوتھائی جرمنی میں دائر کی جاتی ہیں، حالانکہ یہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے تارکین وطن کا پہلا ملک نہیں ہے۔ یورپی یونین کے قانون کے تحت، جرمنی تکنیکی طور پر ایسی درخواستوں پر کارروائی کا ذمہ دار نہیں ہے۔
جرمنی کی وفاقی اور ریاستی حکومتوں نے اس لیے ملک چھوڑنے کے پابند تارکین وطن کے لیے ملک بدری اور نظر بندی کے سخت قوانین اپنانے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم وزیر داخلہ نینسی فیزر نے اب تک جرمن پولش سرحد کے ساتھ غیر قانونی کراسنگ کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کو مسترد کر رہی ہیں جبکہ جرمن-آسٹریا بارڈر پر اس دوران، کئی سالوں سے اسپاٹ چیک کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ یہ بلقان کی سمت سے نقل مکانی کے راستے کے بالکل آخر میں واقع ہے۔
امیگریشن کوٹہ؟
وفاقی جرمن پارلیمان ‘بنڈسٹاگ‘ میں کرسچین ڈیموکریٹ یونین (سی ڈی یو) اور کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کے پارلیمانی گروپ کے چیئرمین تھورسٹن فرائی نے اس موسم گرما کے شروع میں امیگریشن کوٹہ کے حق میں یورپی یونین کی جانب سے پناہ کے لیے دیے گئے انفرادی حق کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے موجودہ نظام کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ صرف دولت مند افراد اور طاقتور نوجوانوں کو یورپی یونین میں ہجرت کے خطرات مول لیتے ہوئے یہاں داخلے کی کوشش میں مدد دیتا ہے۔ فرائی نے کہا کہ بیمار یا بوڑھے افراد سمیت خواتین اور بچوں کے لیے صحارا کو کامیابی سے عبور کرنے یا یورپی یونین میں داخلے کے لیے اس خطرناک رستے کو عبور کرنا یا اس رستے پر رواں جہازوں کا رُخ کرنا بہت مشکل ہے۔
پناہ گزینوں کی تنظیموں کے مطابق یورپی یونین کی پالیسی رکن ممالک میں داخل ہونا بہت مشکل بناتی ہے، کیونکہ پناہ کی درخواستیں یورپی یونین کی سرزمین پر جمع کرانی پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یورپی یونین میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ عام طور سے قیام بھی کر لیتے ہیں، چاہے ان کی درخواستیں مسترد ہی کیوں نہ کر کر دی گئی ہوں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تارکین وطن کو ان کے آبائی ملک واپس بھیج دیا جائے۔ 90 فیصد سے زیادہ شامی اور افغان مہاجرین جو یورپی یونین تک پہنچتے ہیں انہیں تحفظ کا ‘اسٹیٹس‘ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ پاکستان یا ترکی جیسے بہت سے دوسرے ممالک کے لیے صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہاں ان کی درخواستیں مسترد ہونے کی شرح 75 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے تاہم اس کے باوجود ایسے افراد میں سے زیادہ تر کو ملک بدر نہیں کیا جاتا، جن کی دراخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں۔